0
Saturday 29 Sep 2012 22:40

مسلم ممالک فروعی اختلافات بھلا کر عالمی طاقت بن سکتے ہیں؟

مسلم ممالک فروعی اختلافات بھلا کر عالمی طاقت بن سکتے ہیں؟

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ دنوں یو این او کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد نے کہا کہ عالمی برادری غنڈہ گردی سے تنگ آچکی ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ اور اجارہ دارانہ ذہنیت والی عالمی طاقتوں کی جانب سے ایٹمی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ 

انکے بقول سرمایہ دارانہ نظام کے باعث دنیا کو غربت اور دوسرے انسانی المیوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی تنظیم نو کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ خودساختہ اختیارات کی مرکزیت ان لوگوں کے ہاتھ میں آچکی ہیے، جنہوں نے اپنا ضمیر ابلیس کے حوالے کر دیا ہے۔ اسی طرح مصر کے صدر محمد مرسی نے بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دلیرانہ موقف اختیار کیا اور فلسطین کی آزادی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کا ایک رکن ایک قوم کو اسکے حقوق دینے سے مسلسل گریزاں ہے، جس کیلئے وہ دہائیوں سے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ آزاد دنیا کا اس صورتحال کو قبول کر لینا انتہائی شرمناک ہے۔
 
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ عرب علاقوں کو فوری خالی کیا جائے، شام میں غیر ملکی مداخلت بند کی جائے اور ثالثی کی مدد سے شام کے بحران کا کارآمد حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے اسرائیل کا نام لئے بغیر باور کرایا کہ مشرق وسطٰی کسی بھی ملک کے ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے معاہدے میں عدم شرکت برداشت نہیں کریگا، بالخصوص جب وہ غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے دھمکیاں بھی دے رہا ہو۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یو این او کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد اس نازک مرحلہ پر ہوا، جب گستاخانہ فلم کے حوالے سے پوری مسلم برادری کے جذبات مشتعل تھے اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کی آڑ میں گستاخانہ فلم تیار اور جاری کرنیوالوں کیخلاف کسی کارروائی سے واشنگٹن انتظامیہ کی معذرت نے مسلم دنیا کو مایوس کیا۔

چنانچہ یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بالخصوص مسلم ممالک کے سربراہان نے عالمی امن کیلئے سخت خطرہ ثابت ہونیوالی امریکی پالیسیوں اور رویوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی قباحتوں کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا، جس سے مسلم امہ میں شعور کی بیداری کی اجتماعی سوچ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران گستاخانہ فلم کے باعث عالمی اور علاقائی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات کا بطور خاص تذکرہ کیا اور انبیاء کرام (ع) کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کو تعزیری جرم کے زمرے میں شامل کرنے کا تقاضا کیا۔

جبکہ انہوں نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر کے اب تک حل نہ ہونے کو اقوام متحدہ کی ناکامی قرار دیا۔ انہی جذبات کو واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے نئے عالمی نظام اور اقوام متحدہ کی تنظیم نو کی ضرورت پر زور دیا۔ جبکہ مصر کے صدر محمد مرسی نے بھی فلسطین کی آزادی کو تسلیم کرنے کا تقاضا کرتے ہوئے سامراجیت کی زد میں آنیوالی اقوام کے حقوق و مفادات کی وکالت کی اور ایٹمی طاقت سے دوسروں کو ڈرانے والے ممالک بشمول اسرائیل کو نکیل ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔

مسلم ممالک کے ان سربراہوں کی زبان سے ادا ہونیوالے یہ الفاظ درحقیقت عالمی سامراجی طاقتوں کے مقابل مسلم امہ کے اتحاد کیلئے نئے سرے سے صف بندی کے متقاضی ہیں۔ کیونکہ بالخصوص نائن الیون کے بعد مسلم دنیا ہی ان طاقتوں کے زیر بار آئی ہے۔ اس تناظر میں محمود احمدی نژاد کا خطاب تو سامراجی طاقتوں کو کھلا چیلنج تھا۔ حالانکہ یہ ان کا یو این کے سامنے بطور صدر آٹھواں اور آخری خطاب ہے۔ اسی پس منظر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک امریکی مندوبین نے احمدی نژاد کی تقریر کا روایتی بائیکاٹ کیا۔

تاہم انہوں نے نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے جو پیغام مسلم امہ کے اتحاد کا دیا ہے، جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد اب مسلم دنیا کو ضرور اس پر سوچ بچار کرنی چاہیے اور او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلا کر یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کی گئی اسلامی ممالک کے سربراہوں کی تقاریر کی روشنی میں نئی صف بندی کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ پاکستان میں چند دینی اور سیاسی قائدین تقاضا کرتے نظر آتے ہیں کہ نیٹو سپلائی مستقل بند کر دی جائے اور اسلامی ممالک امریکہ سے تعلقات توڑ لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مسلم امہ کو دنیا میں اپنا وزن اور آواز علیحدگی اپنانے سے نہیں بلکہ شائستہ اور ٹھوس ڈیبیٹ اور اپنی بہترین سفارت کارانہ خوبیوں کو بروئے کار لا کر ہی ممکن ہے۔

اسکے ساتھ ساتھ جہاں شائستگی ضروری ہے، وہاں دلائل کے ساتھ اپنا حق منوانا ہی اصل کامیابی ہے۔ اگر گستاخی کا ارتکاب کرنیوالے آزادی اظہار کا سہارا لے کر عالمی امن کی تباہ کاری میں مصروف ہیں تو کیا یہ دہشت گردی نہیں؟ اور اس قسم کی نفرت پھیلانے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کیوں ممکن نہیں؟ دنیا میں مذہبی ہم آہنگی کی فضاء اسی صورت پروان چڑھ سکے گی جب مذہبی رواداری ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کو خاص ترجیح دیگی، اگر یو این میں تقاریر پر یقین کیا جائے اور مانا جائے کہ مسلم دنیا استحصال زدہ اقوام کو سرمایہ دارانہ سامراجی نظام سے نکالنے اور اس نظام کے ہاتھوں بگاڑے گئے طاقت کے توازن کو قائم کرنے کا شعور اپنا چکی ہے تو نئے عالمی نظام کیلئے پیش رفت کرنے سے پہلے مسلم دنیا کو اپنی صفوں میں موجود شیعہ سنی جیسے فروعی اختلافات کو ختم کرکے امتِ واحدہ کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

کیونکہ مسلم دنیا میں موجود ان کمزوریوں سے ہی سامراجیوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مبینہ دہشت گردی کے بہانے اب تک اس تناظر میں ہی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ہاتھوں مسلم ممالک کی کمبختی آئی ہے۔ جنہوں نے مسلم امہ کا اتحاد منتشر ہونے کے باعث عراق اور افغانستان کو نیست و نابود کیا۔ پاکستان اور ایران کی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کو کھلم کھلا چیلنج کیا۔ عرب ریاستوں میں مطلق العنان حکمرانیوں کیخلاف جنم لینے والی عوامی تحریکوں سے جہاں مسلم امہ میں جمہوری نظام کو تقویت ملی۔ وہیں لیبیا اور سیریا میں ان تحریکوں میں شامل القاعدہ اور ایسی دیگر تنظیموں کی سرپرستی بھی کی گئی جبکہ پاکستان اور افغانستان میں انہی کیخلاف عالمی جنگ جاری ہے۔

ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور استعمال کو صرف اپنا حق گردانتے ہوئے امریکہ بالخصوص مسلم ممالک کو اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر گردن زدنی ٹھہراتا ہے۔ یہی پالیسی بقائے انسانیت کیلئے زہر قاتل بن رہی ہے۔

اگر ایٹمی پھیلاﺅ کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دینے والا امریکہ اور ایٹمی طاقت کے حامل اسکے اتحادی دیگر ممالک بشمول بھارت اور اسرائیل خود ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے معاہدے (سی ٹی بی ٹی) پر اب تک دستخط کرنے سے گریزاں ہیں تو درحقیقت وہ خود انسانی تباہی کی نوبت لانے والے ایٹمی پھیلاﺅ کا باعث بن رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور ایران کا ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور اسے براہ راست دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ تو اس سے یہی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلم امہ کا اتحاد نہ قائم ہونے تک انہیں دنیا میں یہ دہرا معیار ہی برداشت کرنا پڑیگا۔

اس صورتحال میں یو این جنرل اسمبلی کا اجلاس مسلم امہ کے اتحاد کیلئے بھی اہم پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے۔ جس میں مسلم ممالک کے سربراہوں کی تقاریر کے ذریعے سامراجی نظام سے خلاصی پانے کی جو سوچ پیدا ہوئی ہے وہ مستقبل قریب میں مسلم امہ کے اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ بشرطیکہ تمام مسلم ممالک ایک مشترکہ کاز کیلئے مصلحتوں اور مفاہمتوں کے لبادے اتارنے اور فروعی اختلافات ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اتحاد امت کے جذباتی نعروں کو جب تک عملیت پسندی کا راستہ نہیں دکھایا جائیگا دنیا ان نعروں اور تقاریر کو بھی سنجیدگی سے نہیں سنے گی۔

خبر کا کوڈ : 199320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش