0
Wednesday 10 Oct 2012 21:58

شاہراہ قراقرم کے بعد کیا ایک بار پھر ٹل پار اچنار روڈ مقتل بننے جا رہی ہے؟

شاہراہ قراقرم کے بعد کیا ایک بار پھر ٹل پار اچنار روڈ مقتل بننے جا رہی ہے؟
قیام پاکستان سے استحکام پاکستان تک قربانیاں دینے والے اہل تشیع اس وقت کوئٹہ سے لے کر گلگت بلتستان اور کراچی سے لے کر پارا چنار تک ملک دشمن عناصر اور کاغذی حد تک دہشت گرد کالعدم تنظیموں تحریک طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔  ملک بھر میں پھیلی ہوئی ملی و عزاداری تنظیموں اور درد دل رکھنے والے شیعہ سنی علمائے کرام کے موقف  کے مطابق مذکورہ کالعدم تنظیمیں تحریک طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی صرف نام کی حد تک کالعدم ہیں، جب کہ اپنے تکفیری و استعماری مقاصد کے لئے ان تنظیموں کو بیرونی آقاوں امریکہ و آل سعود کی ایماء پر پاکستان میں ریاستی سرپرستی حاصل ہے، جس کا واضح ثبوت گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کالعدم سپاہ صحابہ کی کھلم کھلا غنڈہ گردی ہے۔

اس سلسلے میں ایک عرصے سے وقفے وقفے سے کبھی ٹل پارا چنار روڈ اور کبھی گلگت بلتستان کی شاہراہ قراقرم نہتے اہل تشیع مسافروں حتیٰ کہ بچوں اور خواتین کے خون سے لہولہان ہیں، لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اہل تشیع کیخلاف شاہراہوں پر اکثر حملے ریاستی ادراوں ایف سی، آرمی اور پولیس چیک پوسٹوں کے عقب میں ہو رہے ہیں اور سرکاری اہلکار خاموش تماشائی ہیں؟ جب کہ اب تک ان دہشت گرد عناصر کو سزاء نہ دینا بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔

ایک طرف پارا چنار شہر میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں آئے دن کار بم دھماکے، جنہیں مبینہ خودکش دھماکے قرار دے کر سرکاری اہلکار غلط بیانی کرکے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں، حالانکہ چار سال تک جب پارا چنار شہر کی سیکورٹی اہل تشیع رضاکاروں کے ہاتھ میں تھی تو کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ اور دوسری طرف منگل کی صبح بھی پارا چنار سے ایک مسافر فلائنگ کوچ پشاور جا رہی تھی کہ ملک دشمن دہشت گردوں نے لوئر کرم سیکورٹی اہلکاروں کی چھپری چیک پوسٹ کے قریب مسافر کوچ پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین افراد کاظم حسین، منیر حسین اور عارف حسین زخمی ہوگئے۔
 
جنہيں فوری طور پر قریبی اسپتال پہنچایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے ابتداء میں گاڑی پر دور سے راکٹ فائر کئے جو گاڑی کو نہ لگے، جس کے بعد انھوں نے گاڑی اور اس میں بیٹھے مسافروں پر اندھادھند فائرنگ کی۔ عینی شاہدین اور گاڑی میں سوار مسافروں کے مطابق دہشت گردوں کی طرف سے راکٹ فائرنگ سے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ تک کے مرحلے میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر موجود سرکاری اہلکار خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کرتے رہے۔

یاد رہے کہ ٹل پارا چنار روڈ پر یہ حملے حکومت کی جانب سے کرم ایجنسی میں امن کے قیام اور جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کے بعد سے مسلسل جاری ہیں، جن کی تعداد دو درجن سے تجاوز کر گئی ہے، لیکن اب تک امن معاہدہ کے تحت خلاف ورزی کرنے والے فریق اور دہشت گردوں کے خلاف نہ ہی کوئی  موثر کارروائی ہوئی ہے اور نہ ہی ان سے جرمانے کی رقم لی گئی ہے۔
 
ایسا لگتا ہے کہ شاہراہ قراقرم کو مقتل گاہ بنانے کے بعد ایک بار پھر ٹل پارا چنار روڈ مقتل بننے جا رہی ہے اور ایسا کرنے میں دہشت گردوں کے ساتھ ریاستی ادارے بھی ملوث ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے پر حکومت و سول سوسائٹی نے پورے پاکستان میں کہرام برپا کیا ہے، لیکن پارا چنار اور گلگت بلتستان کی شاہراہوں پر نسل کشی اور ریاستی دہشت گردی کو مسلسل نظر انداز کرنا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 202352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش