0
Tuesday 23 Oct 2012 21:43

کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کی ٹارگٹ کلنگ، ذمہ دار کون؟

کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کی ٹارگٹ کلنگ، ذمہ دار کون؟
رپورٹ: عدیل عباس زیدی

بلوچستان کسی زمانے میں امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، اور ملک اور بیرون ملک سے سیاح یہاں تفریح کیلئے آیا کرتے تھے، بالخصوص زیارت، وادی کوئٹہ، کوہ سلیمان اور چلتن کے پہاڑی سلسلے اور دلفریب نظارے سیر و سیاحت سے منسلک افراد کو اپنی طرف کھینچ لاتے تھے، رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کو قدرتی معدنیات اور جغرافیائی لحاظ سے بھی خاصی اہمیت حاصل ہے، گوادر کی بندرگاہ، افغانستان اور ایران کے ساتھ ملنے والی سرحدیں پاکستان کی پڑوسی ممالک کیساتھ تجارت اور دیگر شعبوں میں اہم کردار ادا کر سکتی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس اہم صوبہ کے وسائل اور جغرافیائی اہمیت سے اپنوں کی جانب سے فائدہ اٹھانے کی بجائے دشمنوں کی نظریں اس صوبہ کو لگ گئیں، اور آہستہ آہستہ صوبہ بلوچستان شدید ترین بدامنی کی لپیٹ میں چلا گیا۔

کہیں علیحدگی کی آواز اٹھی تو کہیں مذہب اور مسلک کے نام پر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، حکومت پاکستان کی جانب سے بھی بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے ثبوت کی موجودگی کے دعوے کئے گئے، اور پڑوسی ملک بھارت کو صوبہ میں جاری علیحدگی کی تحریک کا ذمہ دار قرار دیا گیا، بعض حلقوں کی جانب سے افغانستان میں موجود امریکہ اور نیٹو فورسز کی مداخلت کی باتیں بھی سامنے آئیں، بہر حال ان سب الزامات کے بیچ آج کا بلوچستان ایک آگ اور خون میں گھرا ہوا صوبہ کہلایا جا رہا ہے، جس کا واضح ثبوت حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان بدامنی کیس کے حوالے سے جاری کیا گیا فیصلہ ہے۔

آج بلوچ قوم پرستوں کی جانب شہریوں کو اغواء یا لاپتہ کرنے کے الزامات بھی تسلسل سے عائد کئے جا رہے ہیں اور مسخ شدہ نعشوں کی برآمدگی کی بازگشت بھی جاری ہے، لیکن دوسری جانب کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبائل کی منظم اور تسلسل کیساتھ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، صوبائی دارالحکومت میں ہر 24 گھنٹے بعد کم از کم ایک بے گناہ (ہزارہ) شہری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہزارہ قبائل کا تعلق چونکہ مکتب تشیع سے ہے، جو اس قتل و غارت گری کی بنیادی وجہ ہے، دہشتگردوں کا بے گناہ شہریوں کو سرعام گولیوں کا نشانہ بنانا، اسلحہ لہراتے ہوئے فرار ہو جانا اور پھر ببانگ دہل مقامی میڈیا کے ذریعے ان دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا معمول بن گیا ہے۔

آئے روز اہل تشیع ہزارہ کی ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داریاں لشکر جھنگوی کے دہشتگرد قبول کر رہے ہیں، تاہم سیکورٹی ادارے عدالتوں کے ذریعے ان دہشتگردوں کو سزائیں دلوانا تو دور، کسی ایک شرپسند کو گرفتار بھی نہیں کرسکے، ایسے میں دہشتگردی سے متاثرہ ہزارہ قبائل کا اعتماد روز بروز سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر سے نہ صرف اٹھتا جارہا ہے بلکہ وہ ریاستی اداروں کو ہی اس قتل و غارت گری کا اصل ذمہ دار سمجھ رہے ہیں، جس کی مثال گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والا ایک ٹاک شو ہے، جس میں درجنوں کی تعداد میں شریک ہزارہ نوجوانوں نے ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو قرار دیا، اور اس دوران انہوں نے پاکستان سے محبت کا اظہار کرکے ثابت کر دیا کہ وہ کسی علیحدگی کی تحریک کا حصہ ہیں نہ ملک کے خلاف ہونے والی کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے، شائد ہزارہ قبائل اپنی اسی حب الوطنی کی سزاء ہی بھگت رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کے ٹھکانے موجود ہیں، اور ان کے منظم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دہشتگرد تنظیم کی یونٹ سازی تک موجود ہے، جن کا مقصد صرف اور صرف ایک یعنی اہل تشیع کا قتل عام کرنا۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ہزارہ قبائل کی اس ٹارگٹ کلنگ میں فرقہ پرست دہشتگرد تنظیم جنداللہ ملوث ہے اور نام لشکر جھنگوی کا استعمال کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ جنداللہ کے دہشتگرد برادر اسلامی ملک ایران میں کئی دہشتگردی کی کارروائیاں کر چکے ہیں اور اس تنظیم کے دہشتگرد ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں زیادہ سرگرم ہیں، جنداللہ کے سرغنہ کو ایران کے سیکورٹی اداروں نے جب حراست میں لیا تو اس نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کو دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی معاونت حاصل تھی۔

کوئٹہ کی بات کی جائے تو یہاں آباد ہزارہ قبائل کی اکثریت کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے، تاہم شرح خواندگی کے اعتبار سے ہزارہ نوجوان نسل بہت آگے ہے، مذہب سے والہانہ وابستگی اور ذہانت میں ہزارہ قبائل کسی سے کم نہیں، ہزارہ قبائل چونکہ اپنی شکل و صورت کی وجہ سے آسانی سے پہچانے جاتے ہیں، اس وجہ سے دشمن کیلئے انہیں نشانہ بنانا مشکل نہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی اکثر وارداتیں ایسے مقامات پر ہوئیں جہاں سیکورٹی چیک پوسٹیں یا پولیس تھانے قریب تھے، تاہم پھر بھی دہشتگرد آسانی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، گزشتہ ماہ ایک حملہ میں دہشتگرد محافظ کی جوابی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا، جس کے بارے میں بعدازاں معلوم ہوا کہ وہ ایف سی کا حاضر سروس اہلکار تھا، یہ واقعہ ہزارہ قبائل کے ان خدشات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ قتل و غارت گری میں ریاستی اداروں کی کالی بھیڑیں ملوث ہیں۔

کوئٹہ میں اب تک ایک ہزار سے زائد ہزارہ افراد شہید ہو چکے ہیں، تاہم اس معاملہ پر حکومت، سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ملالہ کے واقعہ کو غیر معمولی کوریج دینا والا میڈیا مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے مختلف بہانوں سے شہریوں کو تنگ کرنے میں مصروف ہیں، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردی سے متاثرہ ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بلاجواز گرفتار کیا جاتا ہے، اور وہ شہر جہاں دہشتگرد قتل و غارت گری کرنے کے بعد جدید اسلحہ لہراتے فرار ہو جاتے ہیں، وہاں اپنی حفاظت کیلئے قانونی اور لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے والے شہریوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پولیس اہلکار اکثر شہریوں کو تھانوں میں بند کر دیتے ہیں۔

کوئٹہ میں یوم القدس کے موقع پر ریلی پر خودکش حملہ میں زخمی ہونے والے ایک نوجوان کا نجی ٹی کے اس پروگرام جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے میں کہنا تھا کہ جب وہ زخمی ہوا تو وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسپتال میں اس کی عیادت کی، اس نوجوان نے زخمی ہونے کے باوجود اپنے دیگر زخمی ساتھیوں کو اسپتال پہنچانے میں مدد کی، جب یہ بات رحمان ملک کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس باہمت نوجوان کی بہادری کو سراہا اور اس کیلئے اعزازی تمغہ کا اعلان کیا، اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اس وقت میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب کچھ عرصہ بعد میں نے اپنا ہی نام مقامی اخبار میں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل دیکھا۔ جہاں دہشتگردی سے متاثرہ اور زخمی نوجوان کہ جس کو حکومت کا اہم عہدیدار تمغہ دینے کا اعلان کرتا ہے، وہ اپنا نام جب مطلوب افراد کی فہرست میں دیکھے تو اس ملک کے نظام کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

کوئٹہ سے بنیادی تعلق رکھنے والے ایک سنیئر صحافی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ کوئٹہ میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ریلی میں ہونے والے خودکش حملہ کے متاثرین کو اب تک معاوضہ ادا نہیں کیا گیا، سینئر صحافی نے بتایا کہ جب انہوں نے اس وقت کے صوبائی سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ’’اوپر‘‘ سے حکم تھا کہ ان متاثرین کو کسی قسم کا معاوضہ ادا نہ کیا جائے۔ کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کیساتھ جس قسم کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، وہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے مظالم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

ہزارہ قبائل اس وقت شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں سے بے گناہ کا جنازہ نہ اٹھا ہو، سینکڑوں بچے یتیم ہو چکے ہیں اور کئی مائیں اپنے جگر گوشوں کو کھو چکی ہیں، گھر گھر صف ماتم بچھی ہے، کوئی درد بانٹنے والا ہے نہ کوئی آنسو پونچھنے والا، قتل و غارت گری کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کو نہیں آتا، ان نامساعد حالات کے باوجود ہزارہ قبائل کے صبر اور وطن سے محبت کے جذبے کو سلام پیش نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی، تاہم اب بھی اگر حکومت اور سیکورٹی اداروں نے ہزارہ قبائل کی قتل و غارت گری کو روکنے کیلئے اقدامات نہ کئے تو شائد ہر باشعور اور محب وطن شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں کہ بے گناہ شہریوں کی اس قتل و غارت کی ذمہ دار مقتدر قوتیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 206064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش