0
Friday 2 Nov 2012 12:29

بلوچستان میں طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا گٹھ جوڑ ہے، رحمان ملک کا سپریم کورٹ میں بیان

بلوچستان میں طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا گٹھ جوڑ ہے، رحمان ملک کا سپریم کورٹ میں بیان
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان امن وامان کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا بلوچستان میں گٹھ جوڑ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر انہیں پکڑیں، کیوں گرفتار نہیں کرتے۔ رحمان ملک نے کہا کہ اس سے متعلق پاور پوائنٹ پر بریفنگ دوں گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، ہم سب اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کی حرارت کا اندازہ نہیں کر سکتے، کیا لوگوں کیلئے بلوچستان میں آزادانہ گھومنا ممکن ہے، کیا کوئی کسی جگہ پر محفوظ ہے، وزیراعلٰی کا اپنا بھتیجا قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑے گئے۔
 
اس پر وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے، آپ میرے ساتھ چلیں، میں خود گاڑی چلا کر لے جاوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اچھی ڈرائیو کرتے ہیں مگر بلوچستان صرف کوئٹہ تک نہیں، قلات سے ہندو چلے گئے، ساری دکانیں بند ہیں، قلات میں رات کو سکیورٹی میں قافلے چلتے ہیں، گورنر اور چیف سیکرٹری پر فائرنگ ہوتی ہے، آپ اسلام آباد کی ہواوں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ اس پر رحمان ملک نے کہا کہ آپ کی آبزرویشن درست ہے کیونکہ آپ وہاں کے رہنے والے ہیں، لیکن کیا یہ سارا کچھ حکومت کرا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا بلوچستان میں گٹھ جوڑ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر انہیں پکڑیں، کیوں گرفتار نہیں کرتے۔ رحمان ملک نے کہا کہ اس سے متعلق پاور پوائنٹ پر بریفنگ دوں گا۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر صاحب کا بیان بہت اچھا ہے کہ بریفنگ نہ دیں، ایکشن کریں۔ رحمان ملک نے کہا کہ یہ چیزیں ہمیں جنرل پرویز مشرف سے جہیز میں ملی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو حکومت کا حق اسلئے نہیں دیا جاتا کہ دوسری چیزوں میں پڑیں، حکومت لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کیلئے دی جاتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے پاس معلومات ہیں تو پولیس کو دیں، 800 واقعات ایسے ہوئے جن میں 432 فوج اور ایف سی اہلکار جاں بحق ہوئے، کوئی ایک واقعہ بتائیں جس میں ملزمان کو پکڑا گیا ہو۔ رحمان ملک نے کہا کہ میں نے ایک دن کیلئے روم جانا ہے، لندن میں ملالہ کو بھی دیکھنا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی بلوچستان نکل جاتے ہیں۔ رحمان ملک نے استدعا کی کہ عدالت اپنا عبوری حکم واپس لے یا تبدیل کرنے کے احکامات جاری کرے، عدالتی عبوری حکم سے مسائل آ رہے ہیں، آئینی بریک ڈاون ہو رہا ہے۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں 6 ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی عدالت میں موجود رہے۔ صوبائی سیکرٹری داخلہ نے امن و امان سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی، جس میں بتایا گیا کہ صوبے میں تمام محکمے اپنا آئینی اور قانونی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اور بنچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ رئیسانی حکومت گرا دی گئی تو نئی اتھارٹی نہیں آئے گی۔ حکومت بدلنے کا اختیار صرف عوام کو ہے، اسی دوران وزیر داخلہ رحمان ملک بغیر بلائے روسٹرم پر آگئے، تاہم عدالت نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی۔ وزریر داخلہ نے کہا کہ انہیں نہ سنا گیا تو تاریخ عدالت کو معاف نہیں کر ے گی۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں بلوچستان کے حوالے سے عدالتی احکامات پر سخت تحفظات ہیں۔ رحمان ملک نے کہا کہ بلوچستان کا معاملہ ایسا نہیں جیسے تصویر کشی کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ ان کے ساتھ آج ہی بلوچستان جاسکتے ہیں، جس پر رحمان ملک نے رضامندی ظاہر کی۔ رحمان ملک نے کہا کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں 6 ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ میرے آنے سے پہلے ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی تھی، میں نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ آپ نے لاپتا افراد کو بازیاب کرانے کا وعدہ کیا۔
 
جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو پکڑا یا بازیاب کرانا میرا کام نہیں بلکہ صوبائی حکومت کا ہے، میں صرف لاجسٹک سپورٹ دے سکتا ہوں۔ رحمان ملک نے ایک موقع پر عدالت کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خرابی کے ذمہ دار صرف 387 افراد ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے مشورہ دیا کہ بلوچستان کے دورے کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں وکلا اور میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت بیس نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
خبر کا کوڈ : 208452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش