1
0
Saturday 17 Nov 2012 23:20

تکفیریوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟

تکفیریوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
رپورٹ: عدیل عباس زیدی

بدقسمتی سے پاکستان وہ مملکت ہے جہاں عوام یوم آزادی سے لیکر آج تک ان گنت اور مختلف نوعیت کے مسائل، مصائب اور مشکلات کا سامنا کرتے آئے ہیں، غربت، بے روزگاری، نااہل اور دین سے دور رہنے والے حکمرانوں کا اقتدار، ڈکٹیٹر شپ، سیاسی عدم استحکام، بیرونی مداخلت اور مغربی ثقافتی یلغار جیسے چیلنجز پاکستانی قوم کو مسلسل درپیش رہے ہیں، اس کے علاوہ مذہب کے نام پر انتہاء پسندی و منافرت، دہشتگردی اور فرقہ واریت جیسے ناسور بھی پاکستانی معاشرے میں عرصہ دراز سے موجود ہیں، دشمنان پاکستان نے قوم کو کبھی شیعہ، سنی، کبھی دیوبندی بریلوی یا کبھی مقلدین اور سلفی کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی، تاہم تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے ہمیشہ ان کوششوں کو عوام کی حمایت سے ناکام بنایا۔ تاہم اس کے باوجود ملک میں آج بھی بعض گروہ مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو لڑانے کی کوشش میں مصروف ہیں، کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود یہ گروہ مذہب اسلام کے مستند مکاتب فکر کے مابین تصادم کی ناکام کوششوں سے باز نہیں آئے۔

تاریخ پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ بت شکن، مجاہد اسلام امام خمینی (رہ) کی سرکردگی میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے استعماری قوتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں، جبکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی تحریکیں موجود تھیں انہیں اس انقلاب سے حوصلہ ملا، ملت اسلامیہ نے اس انقلاب کو ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیا، تاہم اسلام کے غلبہ سے خوف زدہ امریکہ اور اس کے پےرول پر پلنے والے بعض ممالک نے فکر خمینی (رہ) کو روکنے کی کوششیں کیں، اور یہ تاثر دیا گیا کہ امام خمینی (رہ) شیعہ انقلاب لانا چاہتے ہیں، تاہم اہل علم اچھی طرح جانتے تھے کہ امام راحل (رہ) نے یہ انقلاب کسی مسلک کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کے نام پر برپا کیا ہے، اگر یہ شیعہ انقلاب ہوتا تو امام (رہ) کی اس عظیم جدوجہد میں دیگر مکاتب فکر کے لوگ شامل نہ ہوتے اور نہ ہی آج برادر اسلامی ملک ایران میں کوئی اہل سنت ہوتا، بلکہ آج جس طرح اہل سنت مکتب فکر کے پیروکار مکمل آزادی اور خوشحالی کی زندگی ایران کے مختلف علاقوں میں گزار رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔

پاکستان میں اسلامی انقلاب سے خائف مخصوص سوچ نے 80ء کی دہائی میں ایک فرقہ پرست گروہ کی بنیاد رکھی، پنجاب کے علاقہ جھنگ سے جنم لینے والی اس شدت پسند سوچ کا سب سے بڑا ہدف مکتب تشیع اور اس کے بعد اہل سنت (بریلوی) مکتب رہا ہے، عصر حاضر میں محض نام کی حد تک کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ نے آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کیں اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے مابین نفرت کے بیج بونا بھی، سادہ لوح عوام اس تنظیم کا سب سے بڑا اور آسان ہدف بنے، نوجوانوں کو صحابہ کرام (رض) کی توہین کا جھوٹا بہانا بنا کر اہل تشیع کے خلاف بھڑکایا گیا، آخر نوبت عزاداری اور عزاداروں پر حملوں تک پہنچ گئی، اس تمام تر صورتحال میں حکومتی سرپرستی سے انکار کیا جانا بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔
 
90ء کی دہائی میں تکفیری گروہ نے اہل تشیع کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، مگر ریاست ٹس سے مس نہ ہوئی، غلیظ نعرے بازی اور اہل بیت رسول اللہ (ص) کی سرعام توہین ہونے لگی۔ اس تکفیری گروہ نے اہل تشیع کے علاوہ اہل سنت بریلوی شہریوں کیلئے بھی مشکلات کھڑا کرنا شروع کر دیں، جو سلسلہ آج تک جاری ہے، مساجد پر قبضے اور جشن میلادالنبی (ص) کے جلوسوں میں رکاوٹیں ڈالنا بھی معمول بن گیا، جنرل مشرف کے دور حکومت میں سپاہ صحابہ کو کالعدم تو قرار دیا گیا لیکن بیلنس کی پالیسی اپناتے ہوئے دوسری جانب اہل تشیع کی نمائندہ تنظیم تحریک جعفریہ پاکستان پر بھی پابندی عائد کر دی گئی، آج بھی ملک کے سنجیدہ حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ ایک مکتب کی نمائندہ جماعت پر تکفیری گروہ کے مقابلے میں کس جواز کے تحت عائد کی گئی، نہ تو کبھی تحریک جعفریہ کا کوئی رہنماء تو دور کی بات کوئی کارکن تک کسی قسم کی شدت پسند میں ملوث پایا گیا اور نہ ہی فرقہ واریت جیسے ناسور کا موجب بنا، جبکہ دوسری جانب ببانگ دہل فرقہ وارانہ دہشتگردی، تکفیری نعرے بازی اور قتل کے فتوے دیئے جاتے رہے۔
 
تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور سپاہ محمد کے سربراہ علامہ غلام رضا نقوی سمیت کئی دیگر اہل تشیع رہنماوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔ فرقہ پرست کالعدم تنظیم کے علاوہ آج لشکر جھنگوی اور جنداللہ کے دہشتگرد بھی پاکستان میں اہل تشیع کا خون ناحق بہا رہے ہیں اور لشکر جھنگوی کی جانب سے تو باقاعدہ ذمہ داری قبول کرنے کے اعلانات بھی کئے جاتے ہیں، کراچی اور کوئٹہ میں روزانہ کی بنیاد پر مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکاروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس سے قبل گلگت بلتستان، ڈیرہ اسماعیل خان، جھنگ سمیت جنوبی پنجاب اور اندورن سندھ میں تکفیری گروہوں کی اہل تشیع کے خلاف کارروائیاں کوئی مخفی بات نہیں۔
 
اس تمام تر صورتحال میں ریاست سے خیر کی توقع رکھنا خام خیال ہوگی، عوام کو اپنے تحفظ اور معاشرے کو تکفیری گروہوں کی گندگی سے پاک کرنے کیلئے سیاسی لحاظ سے خود ہی کوئی اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ ریاست کے اندر مسلح جدوجہد کی اجازت کسی طور پر نہیں دی جاسکتی۔ البتہ بعض آگاہ احباب نے کافی تحقیق کے بعد بعض تجاویز مرتب کی ہیں، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل تشیع اور اہل سنت علماء کرام، مذہبی رہنماء اور عوام ملک میں جاری تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں میں کسی حد تک کمی لانے اور ان کے اصل چہرے منظر عام پر لانے میں کرادار ادا کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں سب سے اہم اور پہلا قدم دونوں مکاتب فکر کی نمائندہ جماعتوں اور تنظیموں کا اپنے مکتب فکر کی جماعتوں اور تنظیموں کیساتھ اتحاد ہے، یعنی سب سے پہلے ہر مکتب فکر کو اپنے طور پر متحد ہونا ہوگا، اس کے بعد اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ ممکن ہو سکتا ہے۔
 
بصورت دیگر اتحاد و وحدت کا نعرہ صرف نعرہ ہی رہے گا، جن حلقوں کا خیال یہ ہے کہ وہ اتحاد بین المسلین کے داعی ہیں لیکن اپنے مکتب میں اتحاد سے گریزاں ہیں تو ایسے میں بیداری کی بڑھتی لہر نے عوام کو اتنا شعور دے دیا ہے کہ وہ اچھے برے کی تمیز کرسکیں۔ دوسرے قدم کے طور پر محلوں اور یونٹ کی سطح پر مشترکہ کمیٹیاں قائم کی جائیں، جن میں تمام مکاتب فکر کے افراد کی یکساں نمائندگی ہو، یہ اقدام ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے، مقامی سطح پر قائم یہ کمیٹیاں تکفیری گروہوں کی مخالفت میں لائحہ عمل طے کریں اور جہاں بھی فرقہ واریت پر مبنی کسی قسم کی تقریر، جلسہ، جلوس یا کوئی اور پروگرام منعقد ہو اس کیخلاف متعلقہ تھانے سے رجوع کریں، ان کمیٹیوں کے عہدیدار ایک دوسرے کے مذہبی پروگرامات میں شرکت کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں، نماز جمعہ کے خطبات میں بھی آئمہ کو کسی قسم کی شدت پسندی کی تقریر سے روکا جائے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی خطبات کو موضوع بحث بنایا جائے اور تکفیری گروہ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

اس کے علاوہ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسے ملکی سطح کے مذہبی پلیٹ فارمز سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے، تمام جماعتوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ اگر کسی بھی بنیاد پر شدت پسند اور فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں سے روابط رکھے گئے تو اس جماعت کو اتحاد سے باہر کر دیا جائے گا، کیونکہ ان دونوں پلیٹ فارمز پر تمام مکاتب فکر کی یکساں نمائندگی ہے اور تمام علماء کرام شدت پسندی اور فرقہ وارانہ سوچ کو مسترد کرچکے ہیں، الیکشن میں بھی تکفیری گروہوں سے کسی قسم کی ڈیل نہ کی جائے، اور تمام جماعتیں اپنی صفوں میں موجود اس قسم کی سوچ کے حامل افراد کو نکال باہر کریں، تکفیریوں سے براہ راست متاثرہ افراد کی نمائندہ جماعتیں آئندہ الیکشن میں ملکر کالعدم تنظیموں کا راستہ روکیں اور ان کے نمائندوں کو اسمبلی میں داخل نہ ہونے دیں۔

ہر شہری اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے ارگرد گرد کے حالات پر نظر رکھے اور کسی مشکوک سرگرمی سے متعلق فوری طور پر عمائدین یا پولیس تھانے کو رپورٹ کرے، شیعہ، سنی جماعتیں کالعدم تنظیموں کو تنہاء کرنے کی بھرپور کوشش کریں، علماء کرام اور مذہبی رہنماء اپنی تقاریر میں تکفیری سوچ کو ضرور زیر بحث لائیں اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کریں، تاکہ نچلی سطح تک عوام اس ایجنڈے سے آگاہ ہوسکیں، ایسے افراد جو کم علمی یا دبائو کے پیش نظر فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا حصہ بن گئے ہیں، انہیں واپس معتدل بنانے کیلئے کوششیں کرنا ہر شہری کا فرض ہے، جبکہ شدت پسندوں کیخلاف مقدمات کے اندراج میں کسی قسم کا خوف محسوس نہ کیا جائے، اگر ان تجاویز پر کسی طور عمل درآمد ممکن ہو تو کم از کم تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں کو کسی نہ کسی حد تک کم ضرور کیا جاسکے گا جبکہ ممکن ہے کہ عوامی اور غیر سرکاری سطح پر ہونے والی ان مثبت کوششوں کے باعث حکومتی سطح پر بھی سرگرمیاں شروع ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 212616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Yeh baat bohat eham hai keh aik hi maktab e fikar k logon me itihaad ho warna dosron se itihaad ka kia faida? Barey kehtey hain pehley ghar ka masla hal karo pher bahir k masail hal karo .jaisa k SUC aur MWM me itihaad nagazeer hai.
ہماری پیشکش