0
Thursday 29 Nov 2012 14:37

کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں، سپریم کورٹ

کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں، سپریم کورٹ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عملدر آمد سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی کی سبراہی میں قائم کردہ پانچ رکنی لاجر بنچ نے کی۔ سماعت کے موقع پر چیف سیکریٹری سندھ راجا عباس، ہوم سیکریٹری وسیم احمد، آئی جی سندھ پولیس فیاض لغاری، ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر، سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان، صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ، سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو شاہ ذار شمون، ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک، پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان سمیت دیگر افسران پیش ہوئے۔
 
سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق چیف الیکشن کمشنر اور چیف سیکریٹری سندھ کے احکامات پر عملدرآمد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے میٹنگ کریں گے نئی حلقہ بندیاں نہ صرف کراچی بلکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے بہتری کا سبب بنے گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں ایسے انتخابی حلقے تبدیل کریں جہاں کسی گروہ سیاسی جماعت یا کسی مخصوص گروپ کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے تین روز میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق حکومت سندھ کے ساتھ مل کر طریقہ کار طے کریں اور رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت سندھ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک مضبوط ادارہ ہے اسے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیکریٹری الیکشن کیشن نے عدالت کو بتایا کہ حلقہ بندیوں سے متعلق مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں گے اور امید ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں مکمل کرلی جائیں گی۔

سینیئر ممبر بورڈ آٓف ریونیو شاہ ذار شمون عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اسی 80 دیہات کی زمینوں کا ریکارڈ جل گیا تھا اس کو دوبارہ مراتب کرنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنروں کو تحقیقات پر مامور کیا گیا تھا جنہوں نے مالکان سے کاغذات کی تصدیق کے بعد یہ کام بہتر فی صد تک مکمل کرلیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پانچ سال تک یہ ریکارڈ دوبارہ کیوں نہیں مرتب کیا گیا اس دوران جتنی زمین ٹرانسفر ہوتی ہے سب غیر قانونی ہے اس کا مکمل ریکارڈ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں اور جب تک ریکارڈز مکمل طور پر مرتب نہیں ہوتا زمینوں کی منتقلی بند کی جائے۔ اس دوران جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے دیئے ہوئے کہا کہ پانچ کروڑ کی زمین کے بدلے پانچ ارب روپے کی زمین کیسے دے دی جاتی ہے محترمہ کی شہادت کے بعد سے اب تک جتنی زمین منتقل ہوئی ہیں اس کی تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔
 
سماعت کے موقع پر رینجرز کی جانب سے تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جج نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد رینجرز کے لیگل ایڈوائزر میجر اشفاق سے پوچھا کہ جب رینجرز کسی ملزم کو گرفتار کرتی ہے تو اسے فوری پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور رینجرز صرف ملزمان کو گرفتار کرتی ہے باقی کام پولیس کا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آرمی رولز رینجرز کو دیگر معاملات کی اجازت نہیں دیتے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں رینجرز پولیس کے اختیارات استعمال کر رہی ہے اس لیے آرمی رولز کا ذکر کرنا درست نہیں ہے۔
 
جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ملزمان کو گرفتار رینجرز کرتی ہے جبکہ پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لے اپنی مرضی کا مقدمہ درج کرتی ہے جبکہ گرفتار ملزمان کو پولیس عدالتوں میں پیش کرتی ہے جھوٹے اسلحے کے ساتھ تو وہ ملزمان رہا ہوجاتے ہیں جس مقدمے کا آغاز ہی جھوٹ سے ہوگا اس کا فائدہ ملزم کو ہی ہوگا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ شہر میں رینجرز کا تھانہ ہونا چاہیے رینجرز ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرے پھر جاکر ملزمان کو سزا ہوگی پولیس اور رینجرز کے درمیان عدم تعاون پایا جاتا ہے جس کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔
 
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہت سی کارروائیوں میں پولیس کو رینجرز اسی لیے شامل نہیں کرتی کیونکہ مخبری کا خدشہ ہوتا ہے۔ جسٹس خلیجی عارف حسین نے کہا کہ رینجرز کی جانب سے دی گئی رپورٹ میں صرف چرس گٹکا اور منشیات کو پکڑتے ہوئے نظر آ ٓرہی ہے جبکہ شہر میں راکٹ لانچر اور بم دھماکے ہو رہے ہیں ان کو پکڑنے کے لیے رینجرز نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ بنچ کے سربراہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رینجرز نے بعض اہم ملزمان کو گرفتار کیا پولیس نے معاملی مقدمات درج کئے جس پر ملزمان عدالتوں سے رہا ہوگئے یہ ملزمان سیاسی وابستگیاں رکھتے تھے۔
 
جسٹس خلیجی عارف حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پھر کہا جاتا ہے کہ عدالت نے ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں کوئی ملزم عدالت کا چاچا ماما نہیں ہوتا استغاثہ اور تفتیشی افسران کی غلطیوں کا جائزہ لیا گیا ہے کبھی جس کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔ جبکہ چائے کے وقفے کے دوران ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے ججز کے چیمبر میں انہیں حساس معاملات پر بریفنگ بھی دی۔ سیکریٹی داخلہ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ نئی اسلحہ پالیسی دو ہزار بارہ کا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے اور وہ اسی ہفتے سمری وزیراعلی سے منظور کرا لی جائے گی ڈرافٹ میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔

وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ رواں سال اب تک آٹھ ہزار غیر قانونی ہتھیار پکڑے گئے جس پر جسٹس خلیجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو غیر قانونی اسلحہ شہر میں آ رہا ہے اس کے لیے کیا کر رہے ہیں اس کو مستقل طور پر روکنے کے اقدامات کریں جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر اسکینر لگانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن اس کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ گذشتہ روز اخبارات میں خبریں آٓتی رہیں کہ ٹنڈوالہیار اسلحلہ ک اباڑ بن چکا ہے اس پر وسیم احمد نے بتایا کہ انہوں نے ڈی پی او ٹنڈوالہیار کو وہاں پر موجود اسلحے کی سترہ دکانوں کے لائسنس چیک کرنے کا حکم دے دیا ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پورے سندھ میں تباہی ہو رہی ہے آپ صرف کراچی کو لے کر بیٹھے ہیں۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ پرانے ہتھیاروں کے حوالے سے آپ کی کیا پالیسی ہے جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ وفاقی اسلحلہ پالیسی کی تقلید کریں وہ موثر اور جامع ہے۔ جسٹس خلیجی عارف حسین نے ریمارکس میں کہا کہ ٓئینی ماہرین سے رائے لے کر قانون بنائیں جو عوام کی بہتری کے لیے ہیں۔

پراسکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان ایڈووکیت نے پے رول پر ملزمان کی رہائی سے متعلق رپورٹ پیش کی جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے پے رول کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے سمری منظور نہیں کی تھی جس کا اعتراف ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بھی کیا۔جس پر وسیم احمد نے بھی کہا کہ یہ تمام عمل غیر قانونی ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ان افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے بتایا جائے۔

ڈی جی ٹریفک نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر اے ایف آر گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور اک سو پچاسی گاڑیاں پکڑی گئیں جس پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹرانسپورٹ کی فٹنس چیک کرنے کا حکم دیا گیا تھا شہر میں چلنے والی دس فیصد ٹرانسپورٹ بھی فٹنس سرٹیفکیٹ کے قابل نہیں ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک سے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے جن گاڑیوں کی فٹنس چیک کی گئی جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔
خبر کا کوڈ : 216173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش