0
Wednesday 12 Dec 2012 12:51

بلوچستان میں کرپشن کا بازار گرم

بلوچستان میں کرپشن کا بازار گرم

سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ویسے تو پاکستان کے تمام صوبوں میں مسائل کے بیج بوئے جا رہے تھے۔ لیکن بلوچستان میں اس کا اثر کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں آیا اور موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کا یہ صوبہ کسی یتیم بچے کی مانند ہوگیا۔ گذشتہ 5 سالہ دور حکومت میں صوبہ بلوچستان میں امن و امان، کرپشن اور تعلیم جیسے دیگر مسائل پر نہ تو صوبائی حکومت نے توجہ دی اور نہ ہی وفاقی حکومت کا کوئی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ صوبہ بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اس حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی صوبائی و وفاقی حکومت کو نااہل قرار دیا ہے، لیکن اب کرپشن کے حوالے سے نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو بلوچستان بھی کافی تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔

گذشتہ روز سرینا ہوٹل میں نیب بلوچستان کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار سے ڈائریکٹر جنرل نیب نے صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ بدعنوانیاں ہونے کا انکشاف کیا۔ نیب بلوچستان نے صوبے میں سب سے زیادہ کرپشن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ کوئٹہ میں نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو بلوچستان کے زیر اہتمام سیمینار میں نیب بلوچستان کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف اقدامات کا ذکر تو نہیں ہوا البتہ ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان میجر ریٹائرڈ سید برہان الدین نے ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں بدعنوانی زیادہ ہونے کا اعتراف کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے تمام محکموں میں بدعنوانی عام ہے، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد کا کہنا تھا کہ سرکاری افسران کی چشم پوشی کے باعث بدعنوانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری افسران کے تبادلوں اور تقرریوں سے متعلق حکم آنے کے بعد افسران کو تحفظ مل گیا ہے۔ انہوں نے افسران پر زور دیا کہ وہ کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کریں۔ سیمینار سے سیاسی رہنماؤں، سماجی شخصیات اور علماء کے علاوہ مختلف محکموں کے افسران، طلباء و طالبات نے بھی خطاب کرتے ہوئے بدعنوانی کے خاتمے پر زور دیا۔

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان پیکج کے نام پر بلوچوں کو مزید معاشی طور پر پسماندہ رکھنے کی سازش کی گئی۔ مرکزی محکموں بالخصوص کسٹم میں خیبر پختونخوا، پنجاب اور افغان مہاجرین کو بلوچستان کے جعلی شناختی کارڈ اور لوکل کے ذریعے سرکاری ملازمتوں پر تعیناتی اور آئی ٹی یونیورسٹی میں انہی علاقوں کے طلباء کو اسی طریقے سے داخلے دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بلوچ نوجوانوں پر مظالم اور آپریشن کئے جا رہے ہیں، انہی علاقوں کیلئے بلوچستان پیکج کے حکمرانوں نے بلند و بانگ دعوے کئے۔ لیکن کسٹم اور دیگر وفاقی محکموں میں رشوت ستانی، اقرباء پروری اور سیاسی بنیادوں پر تعیناتی مزید بلوچوں کے استحصال کا ذریعہ بن رہی ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کو جعلی شناختی کارڈ، لوکل دستاویزات بنا کر بلوچستان کے پروفیشنل کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے کا عمل بلوچ طلباء کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس ملک کے آئین کے مطابق کوٹہ سسٹم کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور آئی ٹی یونیورسٹی اور دیگر کالجز و یونیورسٹیوں میں ضلعی کوٹہ سسٹم کو تحفظ فراہم کیا جاتا لیکن آئی ٹی یونیورسٹی کے ارباب اختیار گذشتہ چھ سال سے واضح داخلہ پالیسی سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔ پسند و ناپسند اور تعصب کی بنیاد پر انہوں نے داخلے دیئے، میرٹ کی باتیں صرف بلوچستان میں کیوں؟ پورے ملک میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے پرویشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکمرانوں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچوں کو معاشی طور پر پسماندہ رکھا جائے اور علم و شعور کے دروازے ان پر بند رکھتے ہوئے قبضہ گیری کی پالیسیاں اپنائی جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بی این پی کسٹم حکام اور دیگر محکموں کیخلاف آواز بلند کرتے ہوئے بلوچوں کیلئے آواز بلند کرنے کو اولیت دیگی اور کسی بھی ادارے یا حکمران کو یہ اختیار نہیں دیگی کہ وہ بلوچ وسائل سے چلنے والے بلوچستان میں اپنی مرضی و منشاء کے ذریعے استحصالی پالیسیاں بنائے اور جعلی لوکل شناختی کارڈ کے ذریعے خیبر پختونخوا، پنجاب اور افغان مہاجرین کو نوازے۔ صوبہ بلوچستان میں اگر امن وامان قائم کرنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام تر طبقات ک وان کے حقوق برابر دیئے جائیں۔ اگر کسی بھی ایک طبقے کو نظر انداز کرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

وفاقی حکومت مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی بجائے صرف کمیٹیوں کی تشکیل پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں کا بھی اب ان کمیٹیوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ پہاڑوں پر جانے والوں سے اب تک کوئی کمیٹی رابطہ بھی نہیں کرسکی ہے۔ صوبے کے سیاسی حلقوں‌ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے جا رہے، جس کے باعث بلوچستان کا مسئلہ مزید بگڑتا جا رہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اب بھی مسئلہ بلوچستان کے حل کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں امن و امان کے حوالے سے فوری اقدامات کرے۔

خبر کا کوڈ : 220280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش