0
Tuesday 11 Dec 2012 23:39

استعماری نظام اسلامی بیداری سے خوف و وحشت میں مبتلا ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی

استعماری نظام اسلامی بیداری سے خوف و وحشت میں مبتلا ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی
اسلام ٹائمز۔ انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے آج "مسلمان اساتذہ اور اسلامی بیداری" کے اجلاس میں شریک سینکڑوں دانشوروں، ممتاز ماہرین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ ملاقات میں اسلامی بیداری کے عنوان کی اہمیت، اسلام اور شریعت اسلامی کے مقام و منزلت اور انقلاب لانے والے ممالک کے عوام کے بارے میں ایک جامع تحلیل اور تجزيہ پیش کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوموں کی نجات اور سعادت کے بارے میں دانشوروں اور ممتاز شخصیات کے نقش و کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے "مسلمان اساتذہ اور اسلامی بیداری" کا اجلاس خاص اہمیت کا حامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے و سماج کی سعادت اور نجات کے سلسلے میں دانشوروں، ممتاز شخصیات اور اساتذہ کی نقش آفرینی کے لئے اخلاص، شجاعت، ہوشیاری، تلاش و کوشش نیز لالچ اور طمع سے دوری کو اصلی شرط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی بیداری اور امت اسلامیہ میں اس بیداری کا اثر و رسوخ ایک عظيم حادثہ اور واقعہ ہے، جو آج دنیا کے سامنے ہے اور جس کی بدولت بعض ممالک میں انقلاب رونما ہوا اور وہاں کی فاسد اور ظالم حکومتیں ختم ہوگئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کو عمیق اور وسیع قرار دیا اور اسلامی بیداری کے لفظ سے دشمنوں کے خوف و ہراس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن بہت کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اسلامی بیداری کا لفظ علاقہ کی موجودہ عظیم تحریک کے لئے استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ دشمنوں کو حقیقی اور واقعی اسلام کے پھیلنے سے سخت خوف و خطرہ لاحق ہے۔ 

انقلاب اسلامی کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دشمن، ڈالر کے غلام اسلام، فساد و اشرافیت میں ڈوبے ہوئے اسلام، اور اس اسلام سے خوفزدہ نہیں جس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں، لیکن عملی اقدام اٹھانے والے اسلام، عوام کے اندر موجود اسلام، اللہ تعالٰی پر توکل کرنے والے اسلام اور اللہ تعالٰی کے وعدوں پر حسن ظن رکھنے والے اسلام سے لرزہ براندام ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہمارا یقین و اعتقاد ہے کہ موجودہ عظیم حرکت ایک وسیع و عریض اور حقیقی اسلامی بیداری ہے جو اتنی آسانی کے ساتھ منحرف بھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے اس بیداری کو اسلامی لفظ سے موسوم کرنے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں حالیہ وقوع پذیر ہونے والے انقلابات میں عوام کے اسلامی نعرے، وسیع و عظیم اجتماعات تشکیل دینے میں اسلامی شخصیات کا کردار اور فاسد حکومتوں کا خاتمہ، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ حرکت و تحریک اسلامی تحریک ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی ممالک کے انتخابات میں عوام کی اسلام پسند عناصر کو ووٹ دینے کو اس تحریک کے اسلامی ہونے کی دوسری دلیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج اگر عالم اسلام کے زیادہ تر حصوں میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرائے جائيں اور اسلام پسند سیاسی عناصر ان انتخابات میں بھرپور شرکت کریں تو عوام اسلام پسند عناصر کو ہی ووٹ دیں گے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطے کے انقلابات کے سلسلے میں بعض اہم نکات کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس اور لیبیا کے انقلابات کو لاحق بعض خطرات کی شناخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطرات کو پہچاننے کے ساتھ انقلابات کے اہداف کی بھی تشریح ہونی چاہیے کیونکہ اگر ہدف مشخص نہ ہو تو سرگردانی اور پریشانی وجود میں آجائے گی۔ 

ایران اسلامی کے سپریم لیڈر نے عالمی سامراجی طاقتوں کے شر سے نجات حاصل کرنے کو اسلامی بیداری کے اہداف میں شمار کرتے ہوئے کہا کہ اس مطلب کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے، کیونکہ ایسا تصور بالکل غلط اور خطا ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں عالمی سامراج ممکن ہے کہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعاون کرے۔ انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ جہاں اسلام اور اسلام پسند ہوں گے، امریکہ ان کو ختم کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرے گا، البتہ ایسا ممکن ہے کہ وہ بظاہر اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی جاری رکھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سامراج کے ساتھ خطے کے انقلابات کو اپنی حد فاصل واضح کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ سامراجی طاقتوں کے ساتھ جنگ کریں، لیکن اگر وہ ان کے ساتھ اپنی حد فاصل مشخص نہیں کریں گے تو وہ دھوکہ کھا جائیں گے۔ 

ایران کے روحانی پیشوا نے سامراجی طاقتوں کی طرف سے دنیا پر تسلط قائم کرنے کے لئے ہتھیار، سرمایہ اور علم کے وسائل سے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام وسائل کے باوجود مغربی دنیا کے لئے اب بھی ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس بشریت کو پیش کرنے کے لئے نئی فکر و سوچ نہیں ہے، جبکہ عالم اسلام کے پاس نیا آئیڈیل اور نقشہ راہ موجود ہے۔ رہبر معظم انقلاب سلامی نے اسلام کو نئے افکار اور نقشہ راہ کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ موضوع عالم اسلام کا قوی اور مضبوط نقطہ ہے اور ان افکار پر اہداف کے ترسیم ہونے کی بنا پر مغربی ممالک کے ہتھیار، علم اور سرمایہ جیسے وسائل ماضی کی طرح غیر مؤثر ثابت ہو جائیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کا ایک اہم ہدف، اسلام اور اسلامی شریعت کے محور پر ہونے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ظاہر کرنے کے لئے وسیع کوششیں جاری ہیں کہ شریعت اسلام ترقی و پیشرفت، تحول اور تمدن کے خلاف ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ اسلام انسانوں کی تمام ضروریات کے بارے میں جوابدہ ہے اور تمام ادوار میں انسان کی پیشرفت اور ترقی کا ضامن ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ نے ان رجعت پسند اور انتہا پسند گروہوں کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کیا جو اپنے اقدامات کے ذریعہ اسلام میں پیشرفت کی نفی کا تصور پیش کرتے ہیں، البتہ حقیقی اسلام وہی ہے جو بشریت کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے اور یہی فکر و سوچ قابل قبول فکر و سوچ ہے۔ 

حضرت آیت اللہ لعظمٰی سید علی خامنہ ای نے نظام کی تشکیل کو اسلامی بیداری کا ایک دوسرا اہم ہدف قرار دیا اور نظام کی عدم تشکیل کی بنا پر شکست سے دوچار، شمال افریقہ کے تاریخی تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انقلاب لانے والے ممالک میں نظام کی تشکیل نہ ہوئی اور مضبوط بنیاد نہ رکھی گئی تو انھیں اس صورت میں سخت خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطے کے انقلابات میں عوام کی پشتپناہی کو انقلاب کی حفاظت کے لئے ایک اہم عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اصلی طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے اور جہاں عوام ایک آواز اور اتحاد کے ساتھ اپنے رہنماؤں کے ساتھ ہوں گے، وہاں امریکہ اور امریکہ سے بھی بڑا کوئی دشمن کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کو میدان میں موجود رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں دانشور، صاحبان قلم، شعراء اور بالخصوص علماء اسلام اپنا اہم کردار ادا کریں اور انقلابات کے اہداف اور دشمنوں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور رخنہ اندازیوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔ انہوں نے طاقتور بننے کے لئے انقلاب لانے والے ممالک میں علم و ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور جوانوں کی علمی تربیت کو اسلامی ممالک کے بہت ضروری مسائل میں شمار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام ممکن ہے اور اسلامی جمہوری ایران اس کا عملی اور کامیاب تجربہ ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایران انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے علم کی بہت ہی نچلی سطح پر تھا، لیکن آج اسلام اور انقلاب کی برکت کی وجہ سے ایران کا دنیا کے ممتاز علمی ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اعداد و شمار کے بین الاقوامی معتبر اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایران کی علمی پیشرفت سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ 

سید علی خامنہ ای نے کہا کہ اس کامیاب تجربے کو اسلامی ممالک میں جاری و ساری رہنا چاہیے اور اسلامی ممالک کو اس مقام تک پہنچنا چاہیے جہاں وہ دنیا کے لئے علمی مرجع اور نمونہ عمل بن سکیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے کہا کہ ایران میں اسلامی نظام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر علم کے اعلٰی ترین مقام پر پہنچا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اتحاد کو عالم اسلام کے بنیادی مسائل میں شمار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک اور امریکہ شیعہ و سنی کے عنوان سے مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے اور ان مسائل کا اسی نقطہ نظر سے جائزہ لینا چاہیے اور اپنے مؤقف کو بیان کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور کوششوں کے باوجود عالم اسلام کی پیشقدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پیشقدمی کی ایک نشانی آٹھ روزہ جنگ ہے، جس میں ایک طرف فلسطین کے ایک چھوٹے سے علاقہ غزہ کے رہنے والے تھے، جبکہ دوسری طرف دنیا کی قوی ترین اسرائیلی فوج تھی اور جنگ بندی کے دوران جس فریق نے شرائط رکھیں وہ غزہ کے فلسطینی تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا دس سال قبل کسی کو یقین تھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو شاباش ہو، حماس اور اسلامی جہاد کو شاباش و مبارکباد ہو، غزہ کے دفاعی یونٹوں کو شاباش ہو، جنھوں نے اسرائیل کے مقابلے میں بھرپور شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ 

انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ نے کہا کہ میں اپنی طرف سے تمام فلسطینی مجاہدوں کی زحمتوں، فداکاریوں اور کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کی آٹھ روزہ جنگ کو فلسطینی عوام اور اسی طرح تمام مسلمانوں کے لئے اہم درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کی جنگ سے معلوم ہوگیا کہ اگر سب آپس میں متحد رہیں اور سختیوں پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو سختی کے بعد آسانی کا اللہ تعالٰی کا وعدہ محقق ہو جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ بحرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بحرین کے مسئلہ میں عالم اسلام کی مکمل خاموشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جو اس مسئلہ کے بارے میں غلط نظریہ کی عکاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحرین کے مسئلہ کے بارے میں بعض افراد اور ممالک کی نگاہ مذہبی نقطہ نظر سے ہے وہ بحرین میں جاری اسلامی بیداری کی تحریک اور ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ایک ایسی قوم جو ظالم اور فاسد حکومت کے خلاف قیام کر رہی ہے، بعض ممالک کی جانب سے اسکی سرکوبی کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف اہل تشیع ہیں جو بحرین کے مظلوم عوام کی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے حالات پر صحیح نگاہ، دشمن کے حیلوں اور منصوبوں کے پیش نظر ہونی چاہیے۔ 

انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ نے شام کے بارے میں اسلامی جمہوری ایران کے مؤقف کو دشمن کے حیلوں کے پیش نظر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران کسی بھی مسلمان کا خون بہانے کے خلاف ہے، لیکن شام کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنھوں نے شام کے مسئلہ کو اندرونی جنگ، برادر کشی اور تخریبکاری تک پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوموں کے تمام مطالبات تشدد کے بغیر اور متعارف طریقوں سے پورے کرنے چاہییں۔ اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی ممالک کے سات دانشوروں اور اساتذہ نے علاقہ کے موجودہ حالات اور اسلامی بیداری کے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔

ملاقات کے آغاز میں عالمی اسلامی بیداری کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کا اسلامی بیداری کے حوالے سے ہونے والی گذشتہ نشستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلامی بیداری اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا اجلاس "پیشرفت، عدالت اور دینی عوامی حکومت" کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں اسلامی ممالک کے 500 اساتذہ، دانشوروں اور محققین نے شرکت کی اور عالم اسلام اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ڈاکٹر ولایتی نے علاقہ میں تبدیلی اور اس تبدیلی کے مسئلہ فلسطین پر اثرات، دینی عوامی نظام کے معیاروں اور عالم اسلام میں نئی حکومتوں کی ضروریات اور ترجیحات، اسلامی بیداری تحریک کے مواقع اور عالم اسلام کے دانشوروں کے تجربات سے استفادہ کو اس اجلاس کے اہم عناوین قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 220336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش