0
Sunday 23 Dec 2012 00:26

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے ناسور نے عوام کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات کی بھی جان لی

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے ناسور نے عوام کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات کی بھی جان لی
اسلام ٹائمز۔ بشیر احمد بلور کے بھائی غلام احمد بلور نے کہا کہ بشیر بلور کی تدفین بچوں کی وطن واپسی کے بعد ہوگی۔ بشیر بلور کی شہادت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انتہائی غمزدہ غلام احمد بلور نے کہا کہ آدھی کمر پہلے ٹوٹی تھی باقی اس واقعہ کے بعد ٹوٹ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بشیر بلور کے بچے بیرون ملک ہیں ان کی واپسی کے بعد تدفین کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ اور ان کی جماعت ڈرنے والی نہیں ہے۔ 

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے ناسور نے عوام کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات کی بھی جان لی ہے۔ سیاستدان، پولیس افسر اور کئی وزرا بھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مسلسل دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ان میں سے تین وزراء بشیر بلور، میاں افتخار حسین اور سردار حسین بابک بار بار دہشت گردوں کا ہدف بنتے رہے۔ 11 فروری 2009ء کو اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی عالم زیب پربم حملہ ہوا جس وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ 11 مارچ 2009ء کو سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کو نمک منڈی پشاور میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تاہم خودکش حملہ آور ان تک نہ پہنچ سکا۔ 2 اکتوبر 2009ء کو اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کے حجرے پر خودکش حملہ کیا گیا مگر اے این پی کے قائد محفوظ رہے۔ نومبر 2009ء میں بین الصوبائی گیمز کی اختتامی تقریب کے بعد قیوم سپورٹس کمپلیکس کے گیٹ پر میاں افتخار حسین اور بشیر بلور پر ایک اور خودکش حملہ ہوا جس میں دونوں محفوظ رہے۔ 

اس کے بعد دسمبر2009ء میں سوات سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے ڈاکٹر شمشیر بھی دہشتگردی کی کارروائی میں جان کی بازی ہار گئے۔ 19 اپریل 2010ء کو قصہ خوانی بازار میں جماعت اسلامی کی ایک ریلی میں ہونے والے بم حملے میں سابق ناظم حاجی دوست محمد اور ڈی ایس پی گلفت حسین سمیت کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ 24 جولائی 2010ء کو صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو دہشت گردوں نے قتل کردیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قائد اسفند یار ولی کی بہن ڈاکٹر گلالئی پر 10 اگست کو قاتلانہ حملہ کیا گیا تاہم وہ محفوظ رہیں۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ پر بھی تین خودکش حملے ہو چکے ہیں جبکہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر دو جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد پر بھی خودکش حملے کیے گئے تاہم یہ رہنما محفوظ رہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ق لیگ کے ایم پی اے اسفندیار امیر زیب بھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے۔ ق لیگ کے ہی ایم پی اے پیر محمد پشاور میں امیر مقام کی رہائشگاہ پر بم حملے میں جاں بحق ہوئے۔ دہشتگردی سے نبرد آزما خیبر پختونخوا پولیس کے کئی افسروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔2007ء کو ڈی آئی جی ملک سعد اور ڈی ایس پی خان رازق خودکش حملے میں جاں کی بازی ہارے۔ ڈی آئی جی بنوں عابد علی کو متنی میں شہید کیا گیا جبکہ 4 اگست 2010ء کو ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت غیور کو خودکش حملے میں شہید کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 223927
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش