0
Tuesday 15 Jan 2013 19:35

مظلوموں کا شہر کوئٹہ مقاومت کی مثال بن گیا

مظلوموں کا شہر کوئٹہ مقاومت کی مثال بن گیا
رپورٹ: ایس اے عباس
 
کوئٹہ میں 10 جنوری کی رات ٹوٹنے والی قیامت نے ملک کے ہر محب وطن شہری بالخصوص ملت تشیع کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ گذشتہ سال 7 سو سے زائد شہادتوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہزارہ قبائل پر یہ سانحہ ظلم کی انتہاء تھا۔ 100 سے زائد بے گناہ افراد کی شہادت کے بعد کوئٹہ کے تشیع نے اب اپنی مظلومیت کو طاقت میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا اور سوگ میں ڈوبے شہداء کے خانوادوں نے اپنے پیاروں کے جنازوں کو اس وقت تک نہ دفنانے کی ٹھان لی جب تک کہ وہ اس ظلم و بربریت کے سلسلے کو جڑ سے ختم نہ کر دیں۔ کربلا کوئٹہ کے تشیع نے 11 جنوری کی دوپہر شہداء کے جنازوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنے کا آغاز کر دیا۔ یہ دھرنا مختلف ملی و سیاسی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم کوئٹہ یکجہتی کونسل کے تحت شروع ہوا۔ دھرنے کے شرکاء کے اہم مطالبات تھے کہ سب سے پہلے نااہل صوبائی حکومت کو برطرف کیا جائے، شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے اور کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن آپریشن کیا جائے۔

جوں جوں وقت گزرتا رہا دھرنے کے شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، جب رات ہوئی تو نقطہ انجماد تک درجہ حرارت کے باوجود خواتین، بچے اور ضعیف العمر افراد بھی دھرنے میں ثابت قدم بیٹھے رہے۔ جما دینے والی ہوائیں چلیں اور خداوند کریم نے ان مظلوموں کا امتحان لیا، لیکن اس مرتبہ یہ مظلوم چراغ بجھا کر نکل آئے تھے۔ گو کہ 100 سے زائد گھرانوں کے چشم و چراغ تو بجھ چکے تھے، لیکن یہ مائیں بہنیں مزید گھروں کو اجڑنے سے بچانے کیلئے نکل پڑی تھیں۔ کوئٹہ میں جیسے ہی دھرنا شروع ہوا ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جمعتہ المبارک کو ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد تواتر کیساتھ اس احتجاج کو دھرنوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہفتہ کی رات تک ملک کے مختلف شہروں میں اہم شاہراوں ہر دھرنے شروع ہوچکے تھے، جس پر ملک کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی کوریج دینے پر مجبور ہوگیا۔
 
مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل کے مرکزی قائدین کی جانب سے ملک کے کونے کونے میں دھرنے شروع کرنے کے اعلان کے بعد اتوار کے روز ملک کے ان در و دیوار نے بھی پرعزم حسینیوں کی صدائے احتجاج سن لی جہاں شائد کبھی ملت تشیع نے احتجاج ریکارڈ نہ کرایا ہو۔ اتوار کے روز تاریخی احتجاج اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ پورا ملک جام ہوچکا تھا اور وطن عزیز کا گوشہ گوشہ ‘‘لبیک یاحسین (ع) ’’ کی فلک شگاف صداوں سے گونج رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ آج ملت تشیع نے اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ملت کے اس اتحاد نے مرحوم قائد ملت جعفریہ کے اس دور کی یاد تازہ کر دی، جب ملت جعفریہ نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اپنے حقوق حکمرانوں سے چھینے۔ اتوار کے روز ملک کی تمام چھوٹی بڑی شاہراہیں حتٰی کہ بعض مقامات پر ریلوے ٹریکس کو بھی بلاک کر دیا گیا تھا۔ 

کراچی سے خیبر، پارا چنار سے کوئٹہ اور گلگت سے لیکر وادی مہران تک ملت تشیع کے احتجاج کی حکمرانی تھی۔ یہ موقع کسی معجزے سے کم محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اس تاریخی احتجاج کے دوران نہ کوئی پتا ٹوٹا نہ ہی کوئی شیشہ۔ تاریخی پرامن احتجاج نے قوم کو احتجاج کرنے کا طریقہ سکھا دیا۔ یخ بستہ ہوائیں بھی خواتین اور ان کی آغوش میں موجود شیر خواروں کو گھر واپس بھیجنے پر مجبور نہ کرسکیں، احتجاج اور مقاومت کا یہ حوصلہ کوئٹہ کے مظلومین کی جانب سے پوری ملت جعفریہ کو ملا۔ کوئٹہ وہ سرزمین ہے جو محض گذشتہ ایک سال کے دوران 700 سے زائد شہادتیں دے چکی ہے، اس بے دردی سے یہاں دہشتگرد گروہوں نے بے گناہوں کا قتل عام اور بعدازاں ذمہ داریاں قبول کیں، وہ ریاستی اداروں کی نااہلیت کا بین ثبوت تھا۔ کوئٹہ کے حالات نے دنیا بھر میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا، اور سوشل میڈیا پر اکثر بیرون ممالک کے شہریوں کی جانب سے پاکستانی اداروں کو سرعام مذاق اڑایا گیا۔

مظلومین کوئٹہ کے شروع کردہ احتجاج اور پھر ملک بھر کو دھرنوں کے ذریعے جام کر دینے کے بعد وزیراعظم کو بالآخر یہ احساس ہوگیا کہ یہ ملت اپنے مطالبات تسلیم کرنے تک گھر واپس نہیں جائے گی، اور کہیں بلوچستان حکومت کی برطرفی کا مطالبہ مرکزی حکومت کی برطرفی کے مطالبہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے موصوف ایک وفد کے ہمراہ کوئٹہ پہنچے اور حکومتی شخصیات کیساتھ ملاقاتوں کے بعد ملکی تاریخ کے نااہل ترین وزیراعلٰی نواب اسلم خان رئیسانی کو ہٹانے کا اصولی فیصلہ کرلیا، جو اس تمام تر سنگین صورتحال کے باوجود بیرون ملک اپنی عیاشیوں میں مصروع تھے۔ اتوار کی شب وزیراعظم ملت تشیع کے اکابرین کیساتھ مذاکرات کیلئے پنجابی امام بارگاہ کوئٹہ پہنچے اور پھر ملت تشیع کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بعض فوری احکامات جاری کئے۔ 

ملت تشیع کی مرکزی قیادت کی جانب سے مطالبات تسلیم کئے جانے کی تصدیق اور احتجاج کا سلسلہ ختم کرنے کی ہدایت پر سوموار کی صبح تک ملک بھر میں جاری احتجاج کے سلسلے کو کامیابی کی نوید کیساتھ ختم کر دیا گیا۔ گو کہ ان شہدائے عظیم کا غم کسی صورت ملت کے دلوں میں کم نہیں ہوسکتا لیکن ان شہداء کے پاک خون نے ملت تشیع کو ایک نیا حوصلہ اور عزم عطاء کیا۔ کوئٹہ کے مظلومین نے 80 گھنٹے سے زائد اپنے شہداء کے جنازوں کے ہمراہ مسلسل احتجاجی دھرنا دیکر مقاومت کی وہ مثال قائم کر دی ہے جو شائد جلد ہی حتمی تبدیلی میں منتقل ہو جائے۔ اور دہشتگردی کا ارض پاک سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو اور تمام پاکستانی سکون اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 231518
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش