0
Sunday 20 Jan 2013 18:32

دارالحکومت بہاولپور اور گورنر ملتان میں بیٹھے گا کا شوشہ سرائیکی وسیب سے بدترین مذاق ہے، ظہوردھریجہ

دارالحکومت بہاولپور اور گورنر ملتان میں بیٹھے گا کا شوشہ سرائیکی وسیب سے بدترین مذاق ہے، ظہوردھریجہ
اسلام ٹائمز۔ دارالحکومت بہاولپور اور گورنر ملتان میں بیٹھے گا'' کا شوشہ سرائیکی وسیب سے بدترین مذاق ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار سرائیکستان قومی کونسل کے صدر ظہور دھریجہ نے رحیم یارخان میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ گورنر مخدوم احمد محمود کو سرائیکی وسیب کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور سرائیکی وسیب کی شناخت کو مسخ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں اور نہ ہی آفیشلی طور پران کو اس کا اختیار حاصل ہے۔ ظہور دھریجہ نے کہا کہ مخدوم احمد محمودکو اس بات کا شوق ہے کہ وہ موجودہ پنجاب کے آخری گورنر اور بہاولپور صوبے کے پہلے گورنر کہلوائیں لیکن ان کے طفلانہ شوق کی خاطر وسیب کے کروڑوں انسانوں کی خواہشات، جذبات احساسات اور آنے والی نسل کے مستقبل کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ 

انہوں نے کہا کہ گورنر مخدوم احمد محمود نے ڈیرہ اسماعیل، ٹانک، میانوالی، جھنگ اور ساہیوال کے بغیر تین ڈویژنوں پر مشتمل بہاولپور صوبے کا شوشہ چھوڑ کر سرائیکی وسیب کے لوگوں کو نئی بحث میں الجھانے اور سرائیکی قوم کو نئے ایشو پر لڑانے کی سازش کر کے تخت لاہور کے آقائوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی شوشہ چھڑوایا کہ نئے صوبے کا دارالحکومت بہاولپور ہوگا وزیر اعلی اور کابینہ بہاولپور میں بیٹھے گی اور گورنر ملتان میں ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سرائیکی وسیب سے بدترین مذاق ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دراصل نوآبادیاتی نظام کی پیداوار اسٹیبلشمنٹ اور اس کے اشاروں پر ناچنے والے جاگیرداروں، سیاستدانوں کی سوچ ہے لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے یہ تاج برطانیہ کا دور نہیں کہ ملکہ انگلینڈ اور وائسرائے دہلی میں بیٹھے گا۔ 

پوری دنیا میں صوبائی دارالحکومت گورنر، وزیر اعلی اور ان کے سیکرٹریٹ ایک جگہ ہوتے ہیں پاکستان کے دوسرے صوبوں کی مثال بھی موجود ہونے کے باوجود سرائیکی صوبے اور قومی شناخت کا راستہ روکنے کیلئے شوشے کیوں چھوڑے جارہے ہیں کیا سرائیکی وسیب کے پاکستان کا حصہ نہیں؟ ظہور دھریجہ نے واضح طور پر کہا کہ حکمران ہماری آنے والی نسلوں کے جذبات سے نہ کھیلیں ورنہ ہم بھی مجبور بنگالیوں، سندھیوں اور بلوچوں والی زبان بولنے پر مجبور ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 232986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش