0
Monday 4 Feb 2013 21:19

گفتگو ہی مسائل کا حل ہے، امریکہ اپنی نیک نیتی ثابت کرے، مذاکرات کیلئے تیار ہیں، علی اکبر صالحی

گفتگو ہی مسائل کا حل ہے، امریکہ اپنی نیک نیتی ثابت کرے، مذاکرات کیلئے تیار ہیں، علی اکبر صالحی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ براہ راست دوطرفہ مذاکرات کے لئے امریکہ کو اپنی سچائی اور نیک نیتی ثابت کرنی ہوگی۔ علی اکبر صالحی میونیخ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے جرمنی کے دورہ پر ہیں، یورپی چينلوں بالخصوص یورو نیوز ‎سے گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا امکان صرف اسی صورت میں ہے جب ایران کے لئے امریکہ کی سچائی اور نیک نیتی ثابت ہو جائے، کیونکہ ماضی کے تجربات اس کے برعکیس ثابت ہوئے ہیں۔
 اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے کہا کہ گرچہ امریکہ کی جانب سے براہ راست مذاکرات کی پیش کش صحیح سمت میں اٹھایا ہوا مثبت قدم ہے لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ فوری اور بلا وقفہ بات چیت شروع کر دیں۔ علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ اہمیت اس بات کی ہے کہ امریکہ واقعاً مسائل کا حل چاہتا ہو اور اگر ہمیں یہ احساس ہوجائے کہ امریکہ واقعاً مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو ہم بھی گفتگو کے لئے آمادہ ہیں۔
 
واضح رہے امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے مونیخ سکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ امریکہ، ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسی تجویز رکھتے ہیں جس سے ایران کے ایٹمی معاملے کا پرامن حل نکل سکتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ نے ماضی میں بھی اس طرح کی پیش کش کی تھی، لیکن امریکہ مذاکرات میں سنجیدہ اور منطق کا پابند نہیں ہے اور مذاکرات کو نتیجہ خيز بنانے سے پہلے ہی میڈیا وار کے ذریعے ایران سے جواب طلب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور اب یہ اپنے تئیں ایران کو مذاکرات کا پابند بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
لہذا امریکہ اور یورپی ملکوں کے لئے مذاکرات اور ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیاں اور دھمکیاں ایک ایسا مناسب ہتھکنڈا ہے، جسے وہ دو دھاری تلوار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کی نیک نیتی کے بغیر کئے جانے والے مذاکرات منطقی نتیجے تک پہنچ پائيں گے؟ اور کیا ان سے مذاکرات کے اھداف کے بارے میں شک و شبہات میں اضافہ نہیں ہوگا؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ وائٹ ہاوس نہ صرف ایران کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھتا، بلکہ ایران کے خلاف ہر طرح کی سازشوں میں ملوث ہے اور کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ جو چیز امریکی حکام کے بیانات سے واضح ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مذاکرات اس لئے کئے جائيں کہ ایران کو ایٹمی معاملے میں اپنا رویہ بدلنے کا پر مجبور کیا جاسکے۔ وائٹ ہاوس کے حکام ایران کی جانب سے ایٹم بم بنائے جانے کے امکان کے باطل فرضیے کو لے کر ایران کے خلاف شدید اقتصادی پابندیاں اور دباؤ ڈال رہے ہیں، جو نہایت ہی غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ 

یہ بات جوبائيڈن کے بیان سے بالکل واضح ہے۔ وہ ایک طرف تو ایران کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف سے ایران پر ایٹم بم بنانے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔ امریکی حکام اس طرح یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور ایران کے خلاف اس کی لگائی ہوئی پابندیاں بھی جائز ہیں۔ لیکن امریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مذاکرات اگر بامعنی ہوں، باہمی اعتماد سازی نیز این پی ٹی معاہدے کے دائرے میں ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کر لیا جائے تو مذاکرات مفید واقع ہوسکتے ہیں۔ صرف مذاکرات برائے مذاکرات کا عمل ہرگز جاری نہیں رہ سکتا۔ کامیاب مذاکرات وہ ہوتے ہیں جن کا انحصار متعدد عناصر پر ہوتا ہے اور ایران و امریکہ کے مذاکرات میں بنیادی حیثیت ایران کے حقوق کو تسلیم کرنا اور ملت ایران کی پیشرفت کے راستوں بالخصوص ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے کے سامنے کھڑی کی گئی روکاٹیں ہٹانے کی ہے۔ 

اگر ایران کے خلاف ہٹ دھرمی کی فضا میں مذاکرات کئے جائيں تو یہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مغرب نے باہمی احترام کے اصولوں کے مطابق کبھی مذاکرات نہیں کئے ہیں، بلکہ اس نے تعمیری مذاکرات کی کوششوں کو پابندیوں، نفسیاتی جنگ، سیاسی دباؤ، حملوں کی دھمکیوں یہاں تک کہ ملک میں فتنے اور بلوے پھیلانے جیسی منفی کارروائيوں سے تباہ کر دیا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ بات کسی بھی طرح دانشمندی کے معیار پر پورا نہیں اترتی کہ ایک طرف تو ملت ایران کے حقوق پامال کئے جائيں اور دوسری طرف سے ایران کے ساتھ مذاکرات کے نعرے لگائے جائيں۔ امریکہ کی تمام تر وعدہ خلافیوں اور غیر تعمیری رویوں کے باوجود اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لئے نیک نیتی کا ثبوت پیش کیا ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر اپنی نیک نیتی اور صداقت ثابت کرنی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 237157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش