0
Friday 8 Feb 2013 23:23

امریکہ حسن نیت ثابت اور قول و فعل کا تضاد ختم کرے

امریکہ حسن نیت ثابت اور قول و فعل کا تضاد ختم کرے
اسلام ٹائمز۔ امریکہ نے کل سے ایران مخالف پابندیوں کا دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ امریکی حکام نے ایرانی تیل کی فروخت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غیر ملکی کرنسی کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد اب اس دوسرے مرحلے میں تیل کے بدلے دوسرا سامان لینے کے سلسلے میں بھی ایران کے سدراہ ہونے کے درپے ہے، تاکہ ایران کے تجارتی شرکاء امریکہ کی تائید کے بغیر ایران کو سامان نہ بھیج سکیں۔ امریکہ نے گذشتہ تین عشروں کے دوران ایران کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت اور ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی کوشش کرنے جیسے بے بنیاد الزامات لگا کر اسلامی جمہوری ایران پر دباؤ ڈالا، حتٰی کہ اس نے امریکی بینکوں میں موجود ایران کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے۔ اس طرح کے غیر قانونی اقدامات یورپ کی جانب سے ایران مخالف پابندیوں میں شدت پیدا کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ امریکہ اپنی اسی طرح کی پالیسوں کو جاری رکھتے ہوئے ایران مخالف اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

بین الاقوامی آزاد تجارت کے قوانین کے منافی امریکہ کے داخلی قوانین کی پیروی کی وجہ سے امریکہ کے اتحادیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے یورپ کی ایک عدالت نے ایران کے ملت بینک کے خلاف یورپی یونین کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کو منسوخ کر دیا اور کل بھی ایک طرح کا ایک فیصلہ جاری کرکے ایران کے صادرات بینک کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو منسوخ کر دیا۔ یورپی یونین کی عدالت نے کہا ہے کہ اس یونین کے حکام اس بات کے شواہد پیش نہیں کرسکے ہیں کہ یہ بینک ایران کے ایٹمی پروگرام میں مدد دے رہے ہیں۔ 2010ء میں جب یورپی یونین نے ایران مخالف اپنی پابندیوں کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ ایران کے بعض بینک تہران کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں اسے سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ امریکہ کے ایران مخالف اقدامات غیر قانونی ہیں اور ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں پر مبنی یورپ اور امریکہ کے غیر منطقی، غیر قانونی اور عجلت پسندی میں کئے گئے فیصلوں کی ان کو خود بھی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود ایران دشمنی میں اس پالیسی کو جاری رکھا جاتا ہے۔ امریکہ ایران کے خلاف پابندیاں ایرانی عوام پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے مقصد سے لگاتا ہے اور وہ اپنے زعم باطل میں ایران کی معشیت پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ اس نے کل سے ایران کے خلاف جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا مقصد بھی یہی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ان پابندیوں سے ایران کے عام لوگ متاثر ہوں اور ایران میں سماجی بدامنی پھیلے۔

دریں اثناء امریکہ کے نائب صدر جو بائيڈن نے گذشتہ ہفتے میونخ اجلاس میں اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بات کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ یہ مذاکرات ایران کے ایٹمی معاملے کے پرامن حل پر منتج ہوسکتے ہیں۔ امریکی حکام اس غلط مفروضے کی بنیاد پر ایران پر سیاسی دباؤ اور اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں شدت پیدا کرنے کی غلط پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی کوشش کر رہا ہے۔ بعض مبصرین امریکہ کے اس رویئے کو دباؤ کی ڈپلومیسی قرار دے رہے اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی حکام یہ خیال کر رہے ہیں کہ اس ڈپلومیسی کے ذریعے ایران کے رویئے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ امریکی حکام کے نزدیک ایران کے رویئے میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ ایران دباؤ کے سامنے جھک جائے اور امریکہ کی منہ زوری پر مبنی پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ایٹمی حقوق سے دستبردار ہوجائے، حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ پچاس برسوں سے زیادہ عرصے جاری اپنی ایران مخالف پالیسیوں کو ترک کر دے اور ملت ایران کے داخلی امور میں مداخلت سے دستبردار ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 238207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش