0
Saturday 9 Feb 2013 21:06

احسان اللہ احسان کیجانب سے مذاکرات کی پیشکش مخلصانہ ہے، حافظ حسین احمد کا دعویٰ

احسان اللہ احسان کیجانب سے مذاکرات کی پیشکش مخلصانہ ہے، حافظ حسین احمد کا دعویٰ
اسلام ٹائمز۔ ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ قطر میں افغان طالبان اور کرزئی حکومت کے درمیان آج باقاعدہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اگر طالبان سے مذاکرات میں مخلص ہے تو اس کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا انتظار کئے بغیر وہ مرکزی حکومت سے بات کریں۔ حافظ حسین احمد نے کہا طالبان بھی مذاکرات میں مخلص ہیں، ثالث بھی مخلص ہیں اب حکومت اور فوج بھی اخلاص دکھاتے ہوئے سیز فائر کر کے باقاعدہ مذاکرات کرے۔ نیٹو افواج کے جانے کے بعد بھی افغانستان اور پاکستان میں دیرپا امن اسوقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں دینی جماعتیں متحد نہیں ہوتیں، انتخابی میدان گرم ہو جانے کے ساتھ ہی پاکستان میں دینی قوتیں اکھٹی ہو جائینگی۔
 
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام اضاخیل خٹک سٹی میں قاضی حسین احمد کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی سراج الحق، مولانا شیر علی شاہ، مولانا الطاف الرحمان بنوی، شبیر احمد خان، معراج الدین خان ایڈووکیٹ اور آصف لقمان قاضی نے بھی خطاب کیا اور قاضی حسین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمارا شروع سے موقف تھا کہ مسائل کا حل اور دیرپا امن طاقت کے زور پر قائم نہیں کیا جا سکتا اور امن کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن حکومت نے امریکی فرمانبردار بن کر طاقت کا استعمال کیا جسکی وجہ سے ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا۔ آج حکومت اور نواز شریف سمیت سب سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے پر زور دے رہی ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومت اور فوج اب بھی مذاکرات شروع کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ طالبان ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے جو پیشکش ہوئی ہے وہ مخلصانہ ہے لیکن حکومت مذاکرات میں اب بھی مخلص نظر نہیں آتی کیونکہ اگر حکومت کی نیت مذاکرات کی ہوتی تو مذاکرات کا اعلان کرتی اور اپنے نمائندے بھی مقرر کرتی۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی اب طالبان سے مذاکرات کیلئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر رہی ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس حکومت کے پاس اب تھوڑے دن ہی رہ گئے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کی اٹھک بیٹھک میں وقت ضائع کرنے کی بجائے وفاقی حکومت پر دباﺅ ڈال کر سیز فائر کا اعلان کر کے طالبان کی پیشکش کا مخلصانہ جواب دیں اور باقاعدہ مذاکرات کیلئے نمائندوں کا اعلان کرے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو افواج کے جانے کے بعد بھی افغانستان میں دیرپا امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان میں دینی جماعتیں اکھٹی نہیں ہو جاتیں اور افغان دینی جماعتیں اسوقت آسانی کے ساتھ اکھٹی ہو جائینگی جب پاکستان میں دینی جماعتیں متحد ہو جائیں۔ 

حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمارا موقف تھا کہ مذاکرات کے عمل میں طالبان کو شامل کئے بغیر امن کا راستہ تلاش کرنا بےسود ہو گا۔ قطر میں برطانیہ پاکستان اور کرزئی کے مابین مذاکراتی عمل میں طالبان کے شامل نہ ہونے کو محسوس کیا گیا اور اسلئے مولانا فضل الرحمان کو اچانک قطر بلا کر مذاکرات میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کا موقف تھا کہ مسائل طاقت کے زور پر حل نہیں ہو سکتے اور آج پوری دنیا مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ حافظ حسین احمد نے دینی جماعتوں کے الائنس کے متعلق کہا کہ جب سیاسی میدان گرم ہو جائیگا تو دینی جماعتوں کا اتحاد بھی خود بخود قائم ہو جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ قاضی حسین احمد مرحوم نے اتحاد و یکجہتی کیلئے جو کردار ادا کیا ہے اور دنیا بھر میں امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے کوششیں کیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بھی طاقت کے بجائے گفت و شنید سے مسائل کے حل کی کوششیں کیں اور باقاعدہ اس مقصد کیلئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا اپنی زندگی میں بھی وہ تمام جماعتوں کو اکھٹا کرتے نظر آئے اور آج انکی موت کے بعد بھی تمام دینی قوتیں انکے تعزیتی کانفرنسوں میں متحد نظر آتیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 238438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش