1
0
Monday 18 Feb 2013 12:53

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ شہید یونس کاظمی کی فریاد!

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ شہید یونس کاظمی کی فریاد!

سرزمین ڈیرہ اسماعیل خان کے گوشے گوشے میں شہدائے ملت جعفریہ کا لہو رچا بسا ہوا ہے۔ کئی سالوں سے جاری قتل و غارت گری کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ کبھی دھماکوں کے ذریعے بےگناہ کو جسموں کے ٹکڑے کئے گئے تو کبھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکاروں کا خون ناحق بہایا گیا۔ کبھی دہشتگردی سے متاثرہ لوگوں کو بھی بےگناہ زندانوں میں ڈالا گیا تو کبھی نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا اور پھر ان کی تشدد ذدہ نعشیں ہی برآمد ہوئیں۔ اس قسم کی ایک کہانی وابستہ ہے سید یونس کاظمی کی ذات سے۔ 34 سالہ انقلابی شیعہ جوان یونس کاظمی کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ ڈھوک سیداں سے تھا۔ موصوف کے اہل خانہ کے مطابق انہیں 2009ء میں عید قربان کی رات بھکر کے علاقہ سرائے نواہگیر سے حساس اداروں نے گرفتار کیا۔ اور پھر ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔

سید یونس کاظمی کی گمشدگی پر سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیئے جانے والے لاپتہ افراد کمیشن کے ذریعے 2012ء میں بھکر پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ تاہم 14 فروری 2013ء کو یونس کاظمی کی تشدد زدہ نعش برآمد ہوئی۔ واضح رہے کہ آپ کے والد سید کفایت حسین کاظمی، چچا سید بشیر حسین کاظمی، مظہر حسین کاظمی، کزن شوکت کاظمی سمیت خاندان کے اٹھائیس افراد گذشتہ چار سال کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔ آپ کے خاندان نے شہادتوں کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کی ہیں۔ جبکہ کزن ناصر کاظمی تین سال سے لاپتہ ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر لازمی ہے کہ گزشتہ سال بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں شیعہ نوجوانوں نوید حسین اور ظفر علی کی 14 اپریل 2012ء کو نعشیں برآمد ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں نوجوانوں کی شہادت سپریم کورٹ میں اپنے کیسز سے متعلق سماعت سے ایک دن قبل ہوئی۔ 

واضح رہے کہ یہ دونوں شہید نوجوان نہ تو وطن عزیز کے خلاف کسی کارروائی میں ملوث تھے اور نہ ہی فوج کے خلاف۔ اس کے علاوہ عارف شاہ، ڈاکٹر رمضان محمد علی دیگر سمیت سات افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان بنوں اور ٹانک سے گرفتار ہونے والے 45 طالبان جو فوج اور پولیس سمیت شہریوں پر حملوں میں ملوث تھے کو گذشتہ تین ماہ کے دوران رہا کردیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اب تک 679 شیعہ افراد کو مسلکی بنیاد پر قتل کیا جا چکا ہے۔ مگر کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ کے مجرم کو سزا نہیں ہو سکی۔ مسجد لٹو فقیر میں خودکش حملہ آور کو زندہ گرفتار کیا گیا لیکن اسے بھی بعدازاں رہا کر دیا گیا۔ ڈی آئی خان میں ہی شیر زمان کے جنازے میں ہونے والے دھماکہ میں 58 افراد شہید ہوئے، اس واقعہ کے پانچ ملزموں کو گرفتار کیا گیا لیکن انہیں بھی پانچ ماہ قبل رہا کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں سول اسپتال دھماکہ، شہید شاہ جنازہ، مسجد چراغ بم دھماکوں کے ملزموں کو گرفتار ہی نہیں کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے دہشتگردوں کی عدم گرفتاری اور سید یونس کاظمی کی مظلومانہ شہادت جیسے واقعات ڈی آئی خان کی ملت تشیع کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے سید یونس کاظمی کی شہادت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس واقعہ کو ایک لمحہ فکریہ قرار دیا ہے۔ ''اسلام ٹائمز'' کیساتھ بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ مظلوم ملت تشیع کے دکھوں کا مداوا کرنے کی بجائے نوجوانوں کو لاپتہ اور پھر قتل کرنا بہت ملت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ ڈی آئی خان مظلوموں کی سرزمین ہے۔ آج تک تشیع کا خون اس سرزمین پر بہہ رہا ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیئے۔

شہید یونس کاظمی کے بہنوئی اور سابق ڈویژنل صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ڈیرہ اسماعیل خان سبط حسن نے ''اسلام ٹائمز'' کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یونس کاظمی جیسے محب وطن اور شریف شہری کی گرفتاری اور پھر نعش کی برآمدگی ریاستی اداروں کی حب الوطنی پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غم ہمارے خاندان کیلئے ناقابل فراموش ہے۔ اسی طرح ڈی آئی خان کے دیگر کئی اہل تشیع افراد کو بھی لاپتہ کیا گیا اور بعض کی تو نعشیں ہی برآمد ہوئیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر دیگر لاپتہ اور گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے۔ شہید کی والدہ نے بتایا کہ سید یونس کاظمی مذہب اور وطن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا۔ اس کی شہادت نے میری کمر توڑ دی ہے۔ میرا اپنی ملت کے قائدین سے شدید گلہ ہے کہ انہوں نے اس علاقہ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کئی سالوں سے شیعہ تنظیموں کی مرکزی قیادت نے ڈیرہ اسماعیل خان رخ تک نہیں کیا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ملت کے اکابرین کو چاہیئے کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان پر توجہ دیں اور حالات کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ آج میری گود تو اجڑی ہے لیکن کل کہیں کسی اور ماں کی گود نہ اجڑ جائے۔ سید یونس کاظمی کا خاندان ڈیرہ اسماعیل خان سے نقل مکانی کرکے بھکر چلا گیا تھا۔ سید یونس کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر ڈی آئی خان کے تشیع کو غم زدہ کردیا ہے۔ شہید کا خانوادہ سوال کر رہا ہے کہ اسے کس جرم میں شہید کیا گیا۔؟ شہید کی اپنی روح بھی آج یہی سوال کر رہی ہو گی 
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

خبر کا کوڈ : 240541
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
We request Army Chief to investigate ISI officers for this killing and other Shia Genocide
ہماری پیشکش