0
Friday 22 Feb 2013 23:18

کراچی میں دہشتگردوں کے اندرونی اختلافات کی داستان

کراچی میں دہشتگردوں کے اندرونی اختلافات کی داستان
رپورٹ: ایس این حسینی

کارکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور نہ کسی کو نقصان پہنچائیں۔ یہ الفاظ ہیں 25 دسمبر کو نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی راہنما اورنگزیب فاروقی کے۔ اگرچہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے پینترا بدل کر دوسرا بیان داغ دیا اور 180 درجے کا یو ٹرن لیتے ہوئے حملے کا الزام شیعوں پر لگا دیا اور انہیں طرح طرح کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ طعنے بھی دیئے۔ 

26 دسمبر کو اس خبر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امت اخبار نے لکھا کہ گلشن اقبال کراچی میں اورنگزیب فاروقی پر حملہ کرنے والوں کی تعداد سولہ (16) تھی اور اس حملے میں ایک بس بھی استعمال کی گئی اور حملے والی جگہ پر ایک بلڈنگ کو بھی استعمال کیا گیا۔ اس واردات میں تین موٹر سائیکل اور ایک کار پر سوار حملہ آوروں نے چاروں اطراف سے فائرنگ کی۔ اورنگزیب فاروقی کی گاڑی کو 35 گولیاں لگیں، لیکن خود اورنگزیب فاروقی کو ایک گولی لگی۔ حملے کا یہ انداز جی ایچ کیو، سری لنکن ٹیم واقعہ اور کامرہ بیس پر ہونے والے حملے کی یاد دلاتا ہے اور اتنی منظم اور بھرپور واردات لشکر جھنگوی اور طالبان دہشت گرد ہی انجام دے سکتے ہیں۔

اگر واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ کراچی میں کالعدم طالبان اور متحدہ قومی مومنٹ کے الطاف حسین کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے، لیکن کالعدم لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق تیلی اور اسکے ساتھیوں کی رہائی کے بعد سپاہ صحابہ دو گرپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اختیارات اور وسائل کی اس جنگ کے نتیجے میں اسلام آباد، اوکاڑہ، جھنگ، چیچہ وطنی اور کراچی میں ملک اسحاق اور احمد لدھیانوی کے حامی گروپوں کی آپس میں مسلح جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں، اور سپاہ صحابہ کے جماعتی انتخابات منعقد ہونے کے بعد دو دفعہ کالعدم قرار دیئے گئے۔ بظاہر ملک اسحاق تیلی کے مطالبات منظور کرکے اسے نائب صدر بنا دیا گیا ہے، لیکن جماعتی سطح پر اسے بہت ساری پابندیوں کا سامنا ہے۔ 

سپاہ صحابہ کی صفوں میں پیدا ہونے والا انتشار دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور سعودی عرب کی مداخلت کے باوجود اختلافات ختم نہیں کئے جاسکے۔ احمد لدھیانوی گروپ کے ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کی جانب سے ملک اسحاق گروپ کے اکلوتے خواندہ رکن غلام رسول شاہ کے خلاف قتل کا پرچہ بھی کروایا جاچکا ہے اور اس کے جواب میں ملک اسحاق نے لدھیانوی گروپ کو یہ دھمکی دی ہے کہ دنیا یاد رکھے، 
ہم نے ہتھیار رکھے ہیں، چلانا نہیں بھولے! 

ان اختلافات کا ایک اور پہلو نہایت دلچسپ ہے، وہ یہ کہ کالعدم تحریک طالبان اور سپاہ صحابہ کے درمیان الیکشن کے ایشو پر زبردست اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ طالبان کے نزدیک پاکستان کا رائج نظام جمہوریت پر مبنی ہے، جو کہ انکے بقول مغربی لادینی نظام کی ایک شکل ہے اور جو جماعتیں چاہے وہ مذھبی ہوں یا سیاسی جماعتیں، جو بھی اس جمہوری نظام کا حصہ بنے وہ انکے بقول کافرانہ اور دجالی نظام کا حصہ ہیں۔ چنانچہ طالبان کی طرف سے انکے خلاف جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپاہ صحابہ اور طالبان کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ جب سپاہ صحابہ نے دفاع پاکستان کونسل کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کیا اور حکومت پاکستان کے موقف کی حمایت کی تو طالبان کی طرف سے احمد لدھیانوی گروپ کی مخالفت کی گئی اور سپاہ صحابہ کو پاکستانی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ترک کرنے پر زور دیا گیا، لیکن احمد لدھیانوی گروپ کا ڈاکٹر خادم ڈھلوں، جو کہ سپاہ صحابہ کا سب سے اہم فگر ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدے پر قائم رہا، تاکہ سپاہ صحابہ کو آنے والے الیکشن میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

اس کے جواب میں طالبان نے کالعدم لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق تیلی کے ذریعے جماعت کے اندر پریشر گروپ بنوایا، لشکر جھنگوی نے سپاہ صحابہ توڑ کر نئی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا، اس پر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مولانا حفیظ مکی نے بہاولپور میں دونوں گروپوں کے درمیان بظاہر صلح کروا دی، لیکن دلوں کی کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد لدھیانوی گروپ کی طرف سے سیاسی طور پر مین اسٹریم میں رہنے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کافر کافر کے نعروں سے اجتناب اور امن کی باتیں نہ تو لشکر جھنگوی کے لیے قابل قبول ہیں اور نہ طالبان کے لیے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں اورنگزیب فاروقی پر ہونے والا واقعہ بھی انہیں اختلافات کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ فاروقی اور احمد لدھیانوی کا موقف ایک جیسا تھا۔

اسکے علاوہ سپاہ صحابہ کے حلقوں میں یہ بات برملا طور پر کہی جا رہی ہے کہ افسوس اورنگزیب فاروقی پر اتنا بڑا حملہ ہوا اور ایک سیکولر رہنما الطاف حسین نے تو اس کی مذمت کی، لیکن دیوبندی جماعتوں میں سے کسی جماعت کے لیڈر نے اتنے بڑے حملے کی مذمت تک نہیں کی۔ سپاہ صحابہ کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ مایوس ہیں اور دشمن کی گولی سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی، جتنی اپنے اکابرین کی خاموشی سے ہوتی ہے۔ حالانکہ ہم (سپاہ صحابہ والے) علماء اور طلبہ کے قتل پر مذمت بھی کرتے ہیں اور ردعمل بھی دکھاتے ہیں، لیکن دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اور قائدین ہمارے قائدین اور کارکنان پر ہونے والے حملوں کی مذمت تک نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں اک شعر ہر وقت ان کی زبان پر رہتا ہے کہ
اپنوں کے نشتر سہہ لینا ۔۔۔۔ ٹکرانا فقط بیگانوں سے

کالعدم سپاہ صحابہ کے کرتا دھرتا افراد جماعت کے اندرونی اختلافات کو چھپانے کے لیے امن کا راگ الاپ رہے ہیں، جیسا کہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے معاویہ اعظم طارق نے سنی ایکشن کونسل کے زیر انتظام مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کراچی میں ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اہلسنت پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مولانا احمد لدھیانوی پر امن رہنے کا اعلان کرچکے ہیں اور قائد جھنگ عبدالغفور جھنگوی پر امن اپیل کرچکے ہیں، لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اگر حکومت نے قاتلوں کو بے نقاب نہ کیا تو ہم بھی اپنے کارکنوں میں اعلان کریں گے تم آزاد ہو اور اب کراچی سے خیبر تک اینٹ سے اینٹ بجائی جائے گی۔ انکا کہنا تھا، ہم اپنے قائد احمد لدھیانوی کے حکم پر پارلیمنٹ تک پلکوں کے بل احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے بھی تیار ہیں اور اپنے قائد کے حکم پر انتقام لینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ گلگت، بلتستان، پاراچنار، ہنگو اور کراچی میں ظلم برداشت نہیں کریں گے۔

وہ بار بار مجمع کے حاضرین سے سوال کرتے کہ کیا قاتلوں کو گرفتار ہونا چاہیے؟ کیا تم انتقام لو گے یا نہیں؟ احتجاج کرو گے یا نہیں؟ ملک اسحاق کے حکم پر دھرنا اور لانگ مارچ کرو گے یا نہیں؟ مجمع ایک آواز ہوکے جواب دیتا کہ انتقام لیں گے اور احتجاج کریں گے۔ اس دوران مجمع سے چند بار شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے اور نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ معاویہ اعظم نے مزید کہا کہ ہمارے ہاتھ ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں تک پنہچ سکتے ہیں، چنانچہ وہ قاتلوں کو بے نقاب کریں۔ آخر میں یہ چیلنج کیا گیا کہ پورے پاکستان میں سپاہ صحابہ سے زیادہ پرامن کوئی جماعت نہیں ہے، ہم نے نہ آج دکانیں بند کروائی ہیں، نہ املاک کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن اب ہمیں سکیورٹی فراہم کرنے کی بجائے ہم سے امن کی امید کی جا رہی ہے اور دوسروں کی مجالس میں آ کر امن کی بات کرنا آسان ہے، لیکن سپاہ صحابہ کی طرح سینے پہ گولی کھا کر امن کی بات کرنا کسی اور کا کام نہیں۔ ہمارے ٹارگٹ کلر اور قاتل جہاں بھی موجود ہیں، انہیں گرفتار کرایا جائے۔
دوسری طرف کراچی میں احمد لدھیانوی گروپ، لشکر جھنگوی کو مخاطب کرکے درج ذیل اعلان کر رہا تھا کہ
دن شہر میں رات مضافات میں رہنا
لازم ہے کہ گردش حالات میں رہنا
یہ شہر ہے آباد غلامان صحابہ سے
اس شہر میں رہنا ہے تو اوقات میں رہنا


کیونکہ اورنگ زیب فاروقی نے اپنے پہلے بیان کو 180 درجے پر لے جاکر لیاقت ہسپتال کراچی سے دوسرا بیان یوں داغ دیا کہ دشمن خوش نہ ہو، میں زندہ ہوں اور مشن جھنگوی پر کوئی سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ لاشیں گرا کر ہمارے حوصلے پست نہیں کیے جاسکتے۔ ہمارا عزم ہے کہ اپنی جانوں پہ کھیل جائیں گے، لیکن اپنے قائد احمد لدھیانوی کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔ آج ہمارے دشمن کے گھروں میں صف ماتم ہے کہ جو وہ کام کرنے آئے تھے، ان کو وہ خوشخبری نہیں مل سکی اور آنے والے دنوں میں یہی ملتا رہے گا کہ ان کا تعاقب جاری ہے اور یہ جاری رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے جو مجھے بچا لیا ہے، وہ مجھ سے کام لینا چاہتا ہے۔ 

طالبان اور سپاہ صحابہ کے اختلافات اور احمد لدھیانوی گروپ کو لشکر جھنگوی کی طرف سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں اور ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوکر ہسپتال میں اورنگزیب فاروقی کے تاثرات اور معاویہ اعظم طارق کے بیان کو ملحوظ نظر رکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ سپاہ صحابہ کے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں پر حملوں میں انہی کے ناراض شدت پسند ہی ملوث ہیں۔ خصوصاً کراچی میں سپاہ صحابہ کے رہنما اورنگززیب فاروقی پر حملہ کرنے والا گروہ تو صاف ظاہر ہے کہ افغانستان یا وزیرستان سے آیا تھا۔ جن کی پاکستان واپسی اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کالعدم سپاہ صحابہ کے تمام راہنما کر رہے ہیں۔ حقیقت کچھ بھی ہو، کراچی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ جس میں سیاسی اور لسانی بنیاد کے علاوہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر بھی لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 241314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش