0
Friday 1 Mar 2013 00:36

سانحہ کوہستان کے شہداء کی برسی بھی ہو گئی لیکن ابتک حکومت کسی دہشتگرد کو گرفتار نہ کر سکی

سانحہ کوہستان کے شہداء کی برسی بھی ہو گئی لیکن ابتک حکومت کسی دہشتگرد کو گرفتار نہ کر سکی
اسلام ٹائمز۔ 28 فروری 2012ء گلگت بلتستان کی تاریخ کا وہ تاریک ترین اور دلخراش دن تھا جب شاہراہ ریشم پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان کے علاقے ہربن داس میں گلگت بلتستان جانے والی بسوں سے شیعیان حیدر کرار کو بسوں سے اتار کر انکے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد نہایت بےدردی سے شہید کیا گیا۔ دہشت گردوں نے دیگر مسافرین کے سامنے شیعہ مسافرین کے ہاتھ پیر باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، اور آرمی کے لباس میں ملبوس نقاب پوش دہشت گرد نہایت اطمینان کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جبکہ پانچ سو میٹر کے فاصلے پر موجود پولیس چوکی بھی ان دہشت گردوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے باز رہی۔ پولیس کا یہ عمل بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے جبکہ سانحہ پیش آنے کے صرف پندرہ منٹ بعد پولیس جائے واردات پر پہنچ گئی اور لاشوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

اس کربناک واقعے کے بعد گلگت بلتستان بھر کے عوام اس تاریخی ظلم پر سراپا احتجاج ہوئے۔ گلگت ہنزہ سے لیکر بلتستان کے بارڈر ایریاز تک احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئ روز تک کاروبار زندگی یکسر معتل رہا، علاقے بھر میں سوگ کا سماں رہا، اور مظاہرین ہربن داس میں شہید ہونے والے اٹھارہ شہداء پر نوحہ کناں رہے۔ اس المناک واقعے پر حکومت، سکیورٹی ادارے اور ایجنسیز خاموش تماشائی بنی رہیں۔ احتجاج کرنے والوں نے حکومت سے کئی مطالبات کیے ان میں حکومت سے گلگت بلتستان کے مسافروں کے لیے متبادل راستہ کا بندوبست کرنے، مسافروں کی حفاظت اور راستے کو پرامن بنانے کے لیے کوہستان کے علاقے میں آپریشن کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن حکومت کے کان پر جون تک نہیں رینگی۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے سانحہ کوہستان کے بعد ہاتھوں میں چوڑیاں تو پہن ہی لیں لیکن عدل و انصاف کی چیمپئین اعلیٰ عدلیہ، ایک تھپڑ پر سو موٹو ایکشن تو لیتی ہے لیکن سانحہ کوہستان پر سو موٹو تو دور کی بات  ایک بیان تک دینے کی زحمت نہیں کی۔ اس دلخراش واقعے کو پیش آئے ایک سال کا طویل عرصہ تو بیت گیا ہے لیکن ایک سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود تاحال کسی ملزم کو گرفتار کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ کوئی ایک مطالبہ منظور ہوا۔ اگر حکومت اور اعلیٰ عدلیہ سانحہ کوہستان پر بروقت ایکشن لیتی تو سانحہ چلاس اور بابوسر جیسے دلخراش واقعات پیش نہ آتے۔
خبر کا کوڈ : 243135
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش