0
Thursday 11 Apr 2013 21:39

سعودی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون وکیل کی رجسٹریشن ہوگئی

سعودی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون وکیل کی رجسٹریشن ہوگئی
اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک زیر تربیت خاتون وکیل کو رجسٹرڈ کرلیا گیا ہے، اس طرح یہاں خواتین وکلاء کی پریکٹس کے لئے ایک راستہ کھل گیا ہے۔ عروہ طلال الحجیلی نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں تاحال وکالت کی پریکٹس کا لائسنس تو نہیں ملا ہے، لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ سعودی وزارت انصاف کی دو فہرستیں ہوتی ہیں، ایک زیر تربیت وکیلوں کی اور دوسری پریکٹس کرنے والے وکلاء کی، اور ان کا نام زیر تربیت وکلاء کی فہرست میں درج کرلیا گیا ہے۔ 
سعودی حکومت کی طرف سے شہریوں کو سخت قوانین میں نرمی دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ سعودی حکومت کو اپنے جاری کردہ نہایت سخت قوانین کیوجہ سے اس وقت اندرونی سطح پر عوام کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اور اپنی حکومت کو بچانے کی غرض سے اب مجبورا وہ ان قوانین میں روز بروز نرمی لارہا ہے۔ جیسے خواتین کی ڈرائیونگ، دکان پر بیٹھ کر روزگار کرنا وغیرہ ایسے امور ہیں جنکی اس سے پہلے سعودی معاشرے میں اجازت نہیں تھی۔ مگر اب انکی اجازت مل گئی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنما ولید ابوالخیر نے میڈیا کو بتایا، عروہ الطلال الحجیلی کی پہلی زیر تربیت وکیل کی حیثیت سے رجسٹریشن کے بعد ایک راستہ کھلا ہے، امید ہے کہ اب خواتین کو بطور وکیل پریکٹس کی بھی اجازت مل سکے گی۔ شوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ولید ابوالخیر نے وزارت انصاف کے جاری کردہ عروہ الطلال کی رجسٹریشن کے سرٹیفیکٹ کی اسکین کی ہوئی نقل بھی پوسٹ کی۔

انہوں نے رپورٹر کو بتایا کہ زیرتربیت وکیل کی تربیت کا عرصہ تین سال سے زیادہ نہیں ہوتا اور اس کو ایک وکیل کے ساتھ معاہدے کے تحت پانچ سال تک کام کرنا پڑتا ہے۔ زیرتربیت وکیل کو پریکٹس کی اجازت ہوتی ہے۔

عروہ الطلال نے کہا کہ زیرتربیت وکیل کا نام جب سرکاری فہرست میں شامل ہوجاتا ہے تو اُسے سعودی عرب کے نظام قانون کی کچھ شرائط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ تمام لاء گریجویٹ کو پریکٹس سے پہلے حسب ضابطہ طریقہ کار پر چلنا ہوتا ہے۔ عروہ بن الطلال نے اس کے علاوہ یہ بھی نشاندہی کی کہ جب تربیتی دور ختم ہونے لگتا ہے تو وکیل اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ کوئی بھی مقدمہ کسی صنفی امتیاز کے بغیر لے سکے، اور مؤکل اگر اس مقدمے کے لئے موزوں سمجھے تو اس کا انتخاب کرسکتاہے۔

لاء گریجویٹ خواتین ایک عرصے سے یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ انہیں پریکٹس کی اجازت ملنی چاہئے۔ سعودی عرب کے قانونی نظام کے مطابق بیچلرز ڈگری یافتہ کے لئے تربیت کی مدت تین سال ہے، جو لوگ قانون میں ماسٹر کی ڈگری کے حامل ہیں ان کے لئے تین سال جبکہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد تربیت سے مستثنا ہوتے ہیں، اور وہ براہ راست پریکٹس کا لائسنس حاصل کرسکتے ہیں۔

سعودی عرب کی وزارت انصاف نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ اگر کوئی خاتون وکیل تربیت کے لئے درخواست دینا چاہیں تو انکی درخواست پر انہیں دو دن کے اندر ہی اس کا موقع فراہم کردیا جائے گا۔ خواتین کے مقدمات کی حد سے زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ خواتین کو وکالت کا حق دیا جائے۔ سعودی وزارت انصاف اُن خواتین وکلاء کو پریکٹس کا لائسنس جاری کردے گی جو وزارت کی داخلہ کمیٹی کے پاس اپنی دستاویزات جمع کرائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 253525
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش