1
Monday 15 Apr 2013 19:29

صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر

صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر
رپورٹ: تصور حسین شہزاد

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کے والدین مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا جٹ قبیلے کے ایک بڑے زمیندار اور صوفی منش انسان تھے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے قافلوں پر حملوں کے دوران ان کے خاندان کے بارہ افراد شہید ہوئے۔ پاکستان میں آکر ان کے والدین نے اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی۔ جھنگ بازار میں ان کی رہائش گاہ تھی اور اسی گھر میں 1955ء میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے آنکھ کھولی، ان کے والد گرامی محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد، امام احمد رضا خان بریلوی کے خاص شاگردوں میں شامل تھے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں صاحبزادہ فضل کریم کا نمبر تیسرا تھا۔ ان کے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل رسول اپنے والد کے سجادہ نشین ہیں اور دوسرے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل احمد بزنس کے ساتھ تبلیغ بھی کیا کرتے تھے، ان کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے دین کی ابتدائی تعلیم شیخ الحدیث مولانا غلام رسول رضوی، مفتی محمد نواب الدین اور مولانا عرفان الحق سے حاصل کی۔ 1987ء میں انہوں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے دینی تعلیم مکمل کی، ان کی شادی 1977ء میں ہوئی، اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی اور ان کا نکاح مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھایا تھا۔ اکتوبر 1978ء میں ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہونے والے کل پاکستان تاریخی سنی کانفرنس میں 15 ہزار علماء اور 10 لاکھ عوام کی موجودگی میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کو جماعت اہل سنت پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ وہ 14 برس تک جماعت اہلسنت پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ چار برس عالمی جماعت اہل سنت کے بھی سیکرٹری جنرل رہے۔ اس دوران انہوں نے برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکہ، ہالینڈ، مصر، سعودی عرب، دبئی اور کینیڈا کے تبلیغی دورے کئے۔

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم جمعیت علماء پاکستان میں مولانا عبدالستار خاں نیازی کے ہمراہ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے سیاسی جدوجہد کرتے رہے، وہ 1993ء میں پہلی بار فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اس کے بعد 1997ء کا الیکشن لڑ کر دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی بنے اور انہیں صوبائی وزیر اوقاف کا قلمدان دیا گیا۔ انہی کی وزارت کے دور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار کی تزئین و آرائش اور توسیع کی گئی۔ بعد میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم فیصل آباد کے این اے 82 سے دو بار مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008ء میں سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی حکومت میں انہیں متحدہ علماء بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا، لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دہشت گردی، سانحہ داتا دربار اور کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر اختلافات میں شدت آنے پر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے متحدہ علماء بورڈ کے عہدے سے استعفٰی دے دیا اور مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ختم کرکے اپنے سیاسی راستے جدا کر لئے۔

2009ء میں اہل سنت کی 30 جماعتوں نے متحد ہو کر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل قائم کی۔ صاحبزادہ فضل کریم نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے طالبانائزیشن اور مزارات اولیاء پر حملوں کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی دہشت گردی اور پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زور دار آواز اٹھائی۔ یکم جولائی 2010ء کو برصغیر کے سب سے بڑے روحانی مرکز دربار حضرت داتا گنج بخش پر بم دھماکے کے خلاف صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی، 27 اکتوبر 2010ء کو صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی قیادت میں مزارات اولیاء پر حملوں اور دہشت گردی کے خلاف دربار بری امام اسلام آباد سے دربار داتا گنج بخش لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا۔

اپریل 2011ء کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی زیر صدارت ملک گیر استحکام پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی، 14 اکتوبر 2012ء کو صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی زیر قیادت ناموس رسالت کے تحفظ، ڈرون حملوں، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک ٹرین مارچ کیا گیا ۔صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے حضور نبی کریم (ص) کے گستاخانہ خاکوں اور امریکہ میں تیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مسلسل میدان میں رہے، نومبر 2012ء میں جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام گستاخان فلم کے خلاف راولپنڈی سے کراچی تک لبیک یارسول اللہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والوں میں بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم شامل تھے۔ انہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تحریک ختم نبوت میں بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے تاریخی کردار ادا کیا۔

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے بھی سربراہ تھے۔ ان کی زیر نگرانی فیصل آباد میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ رضویہ نصف صدی سے دینی علوم کی ترویج واشاعت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کے والد گرامی کے مریدین اور شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی راستے جدا کرنے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رکھا تھا اور وہ فیصل آباد حلقہ این اے 82 سے امیدوار بھی تھے، انہوں نے ایک بیوہ، چار بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہے، ان کے بڑے بیٹے صاحبزادہ حامد رضا کی عمر 35 برس ہے جو اب اپنے والد کی وفات کے بعد حلقہ این اے 82 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ ان کے چاروں بیٹے دینی و دنیاوی علوم سے آراستہ ہیں، ان کا بڑا بیٹا اور بیٹی شادی شدہ ہیں جبکہ باقی بیٹے غیر شادی شدہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 254430
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش