0
Tuesday 16 Apr 2013 12:22

کراچی میں اغوا برائے تاوان کے واقعات

کراچی میں اغوا برائے تاوان کے واقعات
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آج کل کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بڑی بڑی فائلوں کے ساتھ ہر پیشی پر عدالت کے روبرو کھڑے ہوتے ہیں۔ حکام جرائم کے اعداد و شمار اور اس پر قابو پانے کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں اغوا برائے تاوان کا ذکر تو اب تک نہیں آیا، یا اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ حالانکہ کراچی میں گزشتہ برس 132 افراد کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا جبکہ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 47 افراد کو تاوان کے لئے اغوا کیا جاچکا ہے۔

پولیس اور سیٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اغواء برائے تاوان کے کیسز میں قلیل مدتی اغوا (short -term kidnapping) کی وارداتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ سی پی ایل سی ایک ایسا ادارہ ہے جو اغوا برائے تاوان کے کیسوں کو حل کرنے میں ایک جانب پولیس اور دوسری جانب اغوا ہونے والے شخص کے اہلِ خانہ کی مدد کرتا ہے۔

سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے کا کہنا ہے کہ قلیل مدتی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک شخص پر نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اس کی گاڑی سمیت اغوا کیا جاتا ہے اور شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ ان کے بقول اسی دوران اغوا کنندہ کے موبائل فون کے ذریعے اسکے اہلِ خانہ سے تاوان کی رقم طلب کی جاتی ہے اور رقم ملنے کی صورت میں اغوا کئے جانے والے شخص کو آزاد کردیا جاتا ہے۔

اس تمام کارروائی میں کوئی 4 سے 6 گھنٹے لگتے ہیں اور اب تک کے کیسوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی وارداتوں میں ہر ایک کیسں میں دو لاکھ سے بیس لاکھ تک کی رقم وصول کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کو تیار کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب لوگ کیس کو پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد ہے جو کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ کیس رپورٹ نہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو ہونا تھا ہوگیا اب پولیس اور تھانوں کے چکر لگانے کا کیا فائدہ۔

صرافہ مارکیٹ میں (اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ) اعظم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دکان بند کرکے موٹر سائیکلوں پر گھر کے لئے نکلے اور ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ چند لوگوں نے انکے بھائی کو گن پوائنٹ پر گاڑی میں بٹھایا اور لے گئے۔ اگلے روز صبح سویرے ہی انکے ہی فون سے کال آئی کہ ایک بڑی رقم لے کر ان کی بتائی ہوئی جگہ پہنچ جاؤ۔ تھوڑی بحث کے بعد 10 لاکھ روپے پر معاملہ طے ہوا اور یوں بھائی کو انہوں نے آزاد کیا۔ انکے بقول اس سارے معاملے میں پوری رات کی ذہنی کوفت کے علاوہ اگلے دن دوپہر کے تین بج گئے تھے۔

کراچی بدامنی کیس کے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے دباؤ کے نتیجے میں پولیس نے بظاہر ٹارگٹ کلنگز کی روک تھام پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے لیکن اب تک کوئی افاقہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دو ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا تھا جبکہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 728 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ جبکہ یہ سلسلہ ابھی روکا نہیں بلکہ پوری آب وتاب کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 254587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش