1
0
Thursday 2 May 2013 10:51

آج مذہبی رہنما مومنین کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں، علامہ جواد نقوی

آج مذہبی رہنما مومنین کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں، علامہ جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری اُمت مصطفٰی (ص) کے روح رواں علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دیگر تمام تہوار منائے جاتے ہیں لیکن جناب سیدہ (س) کی ولادت کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا پاکستان میں اس وجہ سے فراموش ہیں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے کہا تھا کہ اے خدا ہمیں ان لوگوں سے جُدا کر دے اور ان لوگوں کو ہم سے جُدا کردے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے قابل نہیں اور نہ ہی ہم ان کے قابل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں جشن ولادت سیدہ فاطمہ (س) کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید جواد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ جو قوم حضرت علی و فاطمہ کا حق ادا نہ کرسکے، خدا ان ہستیوں کو ان سے جدا کرلیتا ہے۔ آج تشیع پاکستان کو سیدہ کے جشن میں ہونا چاہیے تھا جبکہ وہ سیاسی دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں۔ 

اُنہوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان میں تشیع 20جمادی الثانی کو بھول گئے ہیں اور سیاسی بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔ آج مذہبی رہنما مومنین کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم کام خواتین کی بیداری ہے، تاکہ خواتین اپنا مقام پہچان کر اُسے حاصل کرسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خواتین کو اجتہاد کی سطح تک کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو سیدہ سلام اللہ علیھا کی سیرت پر چلنے کی ضرورت ہے۔ جشن کی تقریب سے بزرگ عالم دین علامہ قاضی شبیر حسین علوی، مولانا محمد حسین مہدوی نے خطاب کیا جبکہ اس کے علاوہ علامہ قاضی نادر حسین علوی، علامہ ضمیرالحسن نقوی، مولانا طاہر عباس نقوی، مولانا عون محمد نقوی، سید جاوید حسین حسینی سمیت دیگر افراد نے شرکت کی۔ جشن ولادت سیدہ فاطمہ (س) کی اس تقریب میں خواتین ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
خبر کا کوڈ : 259952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امام خمینی جمہوریت کے مخالف تھے؟
اگر وہ جمہوریت کے مخالف تھے تو کیا ریپبلک کے مخالف تھے یا ڈیمو کریسی کے؟
اگر ڈیمو کریسی کے مخالف تھے تو کیا ڈیموکریسی کی تمام اقسام کے مخالف تھے یا چند اقسام کے؟
بالفرض اگر امام جمہوریت کی کچھ اقسام کو مشروع جانتے تھے تو کیا وہ عوام کو صرف حکومتی عہدیداروں کے انتخاب کا حق دیتے تھے یا ان کو قانون گزاری اور نظام کے انتخاب میں بھی شریک جانتے تھے؟
ان سوالوں کے تفصیلی جواب کے لئے قارئین کو کتاب "صحیفہ نور" کی جانب رجوع کرنا چاہیئے۔
راقم یہاں پر انتہائی اختصار کے ساتھ امام کے فرامین عالیہ میں سے فقط چند گوہر ہائے گراں قیمت کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
یاد رہے کہ انقلاب اسلامی کے نعروں میں سے ایک نعرہ "استقلال آزادی و جمہوری اسلامی" ہے۔ ایرانی عوام اپنی خود مختاری اور آزادی کے خواب کو اسلامی جمہوریت کی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے تھے۔ امام امت کے ارشادات گراں بہا کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ایران میں اسلامی جمہوریت کو رائج کرنا چاہتے تھے۔
امام فرماتے ہیں کہ"اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ ایک ایسی حکومت ہے جو عوام کی آراء اور عوامی ریفرنڈم پر مبنی ہے اور اس کا آئین اسلام کا قانون ہے اور حتماً اسلامی قانون کے مطابق ہونا چاہیئے" (صحیفہ نور،ج 4 ، صفحہ 248)۔
امام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں "ہماری مورد نظر اسلامی جمہوری حکومت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کی سیرت سے الہام لے گی اور ملت ایران کی عمومی آرا پر مبنی ہوگی۔ حکومت کی شکل و صورت کا تعین ملت ایران اپنی رائے سے کرے گی" ( صحیفہ نور، ج 4، صفحہ 332)۔

امام صحیفہ نور کے اسی صفحے پر مزید فرماتے ہیں کہ ہم عوامی ریفرنڈم کے ذریعے سے ایک اسلامی جمہوریہ تشکیل دیں گے۔ امام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ"ہم اسلامی جمہوریہ کے قیام کے خواہاں ہیں اور وہ ایک ایسی حکومت ہے جس کا انحصار عوامی آراء پر ہے۔ حکومت کی آخری شکل کا تعین عوام ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال اور تقاضوں کی بنیاد پر کریں گے" (صحیفہ نور، ج 4، صفحہ 248)۔
جب ریفرنڈم کے ذریعے ایران کے 98 فیصد سے زائد عوام نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں رائے دی تو امام نے ریڈیو پر آ کر اس دن کو عید کا دن قرار دیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ملت ایران ہر سال اس دن کو عید کے طور پر منائے۔ (صحیفہ نور ، ج 5، ص 238)

ایک اور مقام پر امام راحل یوں سخن طراز ہوتے ہیں، "ایران کا حکومتی نظام اسلامی جمہوریہ ہے جو کہ (ملت ایران کی) خود مختاری اور ڈیموکریسی کا محافظ ہے اور یہ نظام اسلامی اصولوں اور قوانین کی روشنی میں وضع کیا جائے گا " (صحیفہ نور، ج 4، ص309)۔
امام کے اس فرمان سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ڈیموکریسی کے بھی مخالف نہیں تھے۔ لیکن یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا وہ ہر قسم کی ڈیموکریسی کو مشروع جانتے تھے؟ اس سوال کا جواب ہمیں روح خدا کی زبانی کچھ یوں ملتا ہے، "جو حکومت شاہ کی ظالمانہ حکومت کی جگہ لے گی وہ ایک ایسی عادلانہ حکومت ہوگی جس کی کوئی نظیر مغربی ڈیمو کریسی میں نہیں ملتی اور نہ ہی (آئندہ) ملے گی۔ ممکن ہے کہ ہماری مطلوبہ ڈیموکریسی مغرب میں موجود ڈیمو کریسیوں سے مشابہت رکھتی ہو، لیکن وہ ڈیموکریسی جو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں مغرب میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی ڈیموکریسی مغربی ڈیموکریسی کی نسبت کامل تر ہے۔" ( نور ، ج 2، ص 216)

امام ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ڈیموکریسی کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں، "ڈیموکریسی یہ ہے کہ اکثریت ( وہ بھی اس طرح کی اکثریت کی) کی آراء معتبر ہیں۔ اکثریت جو بھی کہے اس کی رائے معتبر ہے۔ اگرچہ یہ رائے ان کے اپنے نقصان میں کیوں نہ ہو۔ آپ عوام کے ولی نہیں ہیں کہ انہیں کہیں کہ یہ (رائے) ان کے نقصان میں ہے۔ آپ عوام کے وکیل (نمائندے) ہیں نہ کہ ولی" (صحیفہ نور، ج9، ص 304)۔
امام کی نظر میں مغربی ڈیموکریسی جس کا دوسرا نام لیبرل ڈیموکریسی ہے مذموم تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں رائج مغربی طرز کی ڈیموکریسی بھی آپ کے نزدیک قابل مذمت تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ"مغربی ڈیموکریسی بھی فاسد ہے اور مشرقی ڈیمو کریسی بھی۔ اسلامی ڈیموکریسی صحیح ہے۔ اگر ہمیں توفیق حاصل ہوئی تو ہم بعد میں مغرب و مشرق (والوں) کے لئے ثابت کریں گے کہ جو ڈیموکریسی ہمارے پاس ہے وہی حقیقی ڈیموکریسی ہے نہ کہ وہ جو تمہارے پاس ہے۔" (صحیفہ نور، ج 5، ص 238)۔
امام امت مزید فرماتے ہیں کہ اسلام ایک ترقی یافتہ دین ہے اور حقیقی معنوں میں ڈیموکریسی (پر مبنی) ہے۔ (صحیفہ نور، ج 5، ص 353)

صحیفہ نور، جلد نمبر 9 کے صفحہ نمبر 88 اور 89 کے مطابق امام خمینی مُصر تھے کہ ایران میں اسلامی جمہوریت ہو۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چاہتے تھے کے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ڈیموکریٹک کی قید بھی لگائی جائے۔ امام نے اس قید کے نہ لگانے کی چند وجوہات بیان فرمائیں۔ آپ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مبہم لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں، لہذا آپ نہیں چاہتے تھے کہ ایران کے آئین میں ایک ذومعانی لفظ آئے، جس کی بعد میں گوناگون تفسیریں کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے کہا کہ اگر ڈیموکریسی سے مراد آزادی ہے تو اسلام کے ساتھ ڈیموریٹک کی قید لگانا درحقیقت اسلام کی توہین ہے، کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں آزادی موجود ہے۔
آپ نے فرمایا کہ (اس معنی میں) حقیقی ڈیموکریسی کی مثال حضرت امیر کے دور میں ملتی ہے جب آپ ایک یہودی کے خلاف مقدمے میں خلیفہ وقت ہونے کے باوجود عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور قاضی فیصلہ آپ کے خلاف دیتا ہے اور آپ اس فیصلے کو قبول فرما لیتے ہیں۔

امام کے آثار کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ جمہوریت کو ایک خاص انتخابی روش کے طور پر قبول کرتے تھے۔ آپ کے نزدیک اسلامی جمہوریہ کے نظام میں جمہوریت ایک قالب کی حیثیت رکھتا تھا کہ جس کے سانچے میں اسلامی حکومتی نظام کو ڈھالا گیا ہے۔ امام مغربی اور لبرل ڈیموکریسی کے سخت مخالف تھے، لیکن آپ اسلامی ڈیموکریسی کے حامی تھے اور حضرت پیغمبر اکرم ۖ اور امیر المومنین کے دور حکومت کو اسلامی ڈیموکریسی کی بہترین مثال قرار دیتے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ امام ہر طرح کی جمہوریت کے مخالف تھے اور یہ کہنا بھی ناانصافی ہے کہ امام ہر طرح کی جمہوریت کے حامی تھے۔ اگر امام جمہوریت کے مطلق مخالف ہوتے تو آپ ایران میں جمہوریت نافذ نہ کرتے اور ولی فقیہ کو بھی"ولی منتخب مردم" نہ کہتے (صحیفہ نور ج 21، صفحہ 129)۔
اسی طرح اگر امام ہر طرح کی جمہوریت کے حامی ہوتے تو وہ کبھی بھی مغربی جمہوریت پر تنقید نہ کرتے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ڈیموکریٹک کی قید لگانے کی مخالفت کرتے۔
ہماری پیشکش