10
0
Wednesday 15 May 2013 00:54

11 مئی کے الیکشن میں حصہ لیکر پوری پاکستانی قوم نے اللہ کی ربوبیت کا انکار کیا ہے، علامہ سید جواد نقوی

11 مئی کے الیکشن میں حصہ لیکر پوری پاکستانی قوم نے اللہ کی ربوبیت کا انکار کیا ہے، علامہ سید جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفٰی کے روح رواں اور جامعہ عروۃ الوثقٰی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ انسان جب شرک سے آلودہ ہو جاتا ہے تو دل نرم نہیں ہوتے ہیں، ہمارے دل نرم ہونے چاہیں اور یہ زلزلہ ہمارے وجود میں آنا چاہیئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی مرکز شاہ جمال میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ہمیں ہلانے کے لئے خدا نے فرمایا کہ تمہیں بعض اوقات ربوبیت خدا سمجھ میں نہیں آتی، مشکل ہماری ربوبیت میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر قرآن سے گیارہ مئی کے الیکشن میں حصہ لینے والوں سے متعلق پوچھا جائے تو قرآن یہی بتاتا ہے کہ پاکستان کی ساری ملت نے مل کر اللہ کی ربوبیت کا انکار کیا ہے اور اپنے عمل سے اس کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن فرماتا ہے ’’اکثر لوگ جو ایمان لائے ہیں، ان کا ایمان مشرکانہ ہے۔‘‘ یعنی انسان ربوبیت میں مشرک بن جاتا ہے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے، جہاں پروردگار کی بات آتی ہے، جہاں ولی کی بات آتی ہے، جہاں رب کی بات آتی ہے، انسان اللہ سے نکل کر دوسروں کو رب مان لیتا ہے، اس لئے کہ ربوبیت پر ایمان کمزور ہوتا ہے، ربوبیت پر عقیدہ کمزور ہوتا ہے، ربوبیت کے بارے میں فہم کمزور ہوتا ہے، شرک کو جو موقع ملتا ہے ہماری زندگیوں میں گھسنے کا وہ ہماری ربوبیت پر ایمان میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 263850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
لو جی شیعوں میں بھی تکفیری فتویٰ لگانے والے آگئے،
مبارک ہو
تحریک بیداری اُمت مصطفٰی (ص) کے روح رواں علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دیگر تمام تہوار منائے جاتے ہیں لیکن جناب سیدہ (س) کی ولادت کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا پاکستان میں اس وجہ سے فراموش ہیں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے کہا تھا کہ اے خدا ہمیں ان لوگوں سے جُدا کر دے اور ان لوگوں کو ہم سے جُدا کر دے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے قابل نہیں اور نہ ہی ہم ان کے قابل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں جشن ولادت سیدہ فاطمہ (س) کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید جواد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ جو قوم حضرت علی و فاطمہ کا حق ادا نہ کرسکے، خدا ان ہستیوں کو ان سے جدا کر لیتا ہے۔ آج تشیع پاکستان کو سیدہ کے جشن میں ہونا چاہیے تھا جبکہ وہ سیاسی دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان میں تشیع 20جمادی الثانی کو بھول گئے ہیں اور سیاسی بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔ آج مذہبی رہنما مومنین کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم کام خواتین کی بیداری ہے، تاکہ خواتین اپنا مقام پہچان کر اُسے حاصل کرسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خواتین کو اجتہاد کی سطح تک کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
یہ فتوٰی صرف 11 مئی کے الیکشن کے لئے ہے یا ہر الیکشن کے لئے۔ مزید یہ بھی معلوم ہو کہ جو جو اس شرک کا مرتکب ہوا ہے، اسکے لئے کفارہ کیا ہے؟
Pakistan
رہبر معظم سے تازہ ترین استفتاء اور اس کا جواب!!!
غیر مسلم ملک میں ووٹ دینے کا حکم۔
سوال: کیا غیر مسلم ملک میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔؟ اگر ہاں تو کیا ایسے شخص کو ووٹ دیا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کے امور پر مسلمانوں کی حمایت کرتا ہو، مثلاً عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء جیسے امور پر، اور کیا دوسروں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے۔
رہبر معظم کا جواب: نیشنل کونسل کے انتخابات کے لئے ووٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، جس کا ہدف ایسے امور کا کنٹرول کرنا ہو، جن کی اسلام میں سیاسی اور معاشرتی طور پر اجازت دی گئی ہو، اس امر میں کوئی ممانعت نہیں ہے کہ امیدوار مسلمان ہے یا غیر مسلمان۔

ذرا سوچئے!!!
اگر غیر مسلم ملک میں غیر مسلم شخص کو ووٹ دینے سے انسان ربوبیت سے خارج نہیں ہوتا تو ایک مسلم ملک میں جس کا آئین بھی اسلامی ہو کیسے ربوبیت سے خارج ہوسکتا ہے، یاربوبیت کا انکار ہوجاتا ہے۔
To Vote in Elections of Non-Islamic Countries
Q: Is it allowed to vote in national elections of non-Islamic countries? If yes, is it permitted to vote for a candidate who enjoys Muslims’ support in certain issues (e.g. the withdrawal of American troops _from Iraq) and not for another candidate?
A: There is no objection to voting for candidates in elections of national councils to take charge of Islamically lawful social and political responsibilities. In this regard, it makes no difference whether the candidate is a Muslim or not.

http://www.leader.ir/tree/index.php?catid=72
then click Clultural and Social Affairs

then click Superstitutions

http://www.leader.ir/tree/index.php?catid=72
United States
Pakistan k shia aik din iss syed ki di hvi fikr-e-imam ki traf wapas aa jain gay
یہ نہ دیکهیں کون کہہ رہا هے بلکہ یہ دیکهیں کیا کہہ رہا ہے
شرک کا خطره علی جیسے امام کو هو سکتا هے که جب جنگ خندق می ایک لعین حضرت کی طرف جسارت کرتا هے تو امت کو کیوں نهیں۔
خبردار رهنا چاهیے۔
Salam mujhay is bat ki samjh nahi ati k Hamaray Ullema koi kia kehta hay to koi kia kehta hay. hamaray Ullema ko chaheye k Rehbar e Muazam Khamenai say Mil kar faisal karin k wo Kia hukam daytay hian tab sahi tarhan pata chal jaye ga k kia karna hay Pakistan k Election k leye?????????????????????????????
ربوبیت کا انکار یعنی کفر، شرک۔
اللہ کریم اس قوم پر رحم فرمائے، پہلے تو ایک فرقہ دوسرے کو کافر کہتا تھا اب ایک ایسا فرقہ پیدا ہو رہا ہے جو پاکستان کی ساری قوم کو کافر کہتا ہے، گویا اس کا نعرہ ہے "کافر کافر سارے کافر"۔
نبی کریم ص کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ اگر ایک شخص دوسرے کو کافر کہے تو پھر کہنے والے اور جسے کہا جا رہا ہے میں سے ایک ضرور کافر ہے۔
آغا جان، کیا ہمیں پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ علماء الیکشن میں حصہ لینے کو حرام اور اسے نظام امام و امت برپا ہونے میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟
آغا بہاؤ الدینی نے کہا کہ نظام امت و امامت برپا کرنے کیلئے چار ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ نمبر ایک آئین یعنی دستور، نمبر دو رہبر، نمبر تین فدایان اور نمبر چار نظام کی قبولیت۔
آیت اللہ بہاؤالدینی نے فرمایا کہ پاکستان میں یہ ارکان موجود نہیں ہیں، البتہ فقط کچھ تعداد میں فدایان موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آئین پر کام نہیں ہوا، خمینی جیسا رہبر نہیں اور سب سے بڑھ کر نظام کو قبول کرنے والے ہی نہیں، تو ایسی صورت میں نظام امام و امت کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں صرف پندرہ سے بیس فی صد شیعہ ہیں اور وہ بھی گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ اسی سے پچاسی فیصد برادران اہل سنت ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے اس نظام کے حوالے سے تحفظات ہوں، پس معروضی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے فی الوقت پاکستان میں نظام امام و امامت قابل عمل نہیں ہے۔
آغا بہاؤ الدینی نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں کیا اب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے، یا میدان میں اتر کر اقدامات کرنے چاہیں۔ آغا نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی طرف سے بھرپور ذمہ داری ادا کریں۔

ندیم حیدر نے آغا بہاؤالدینی سے ایک اور سوال کیا کہ پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے مراجع عظام کا کیا حکم ہے۔؟ جواب ملا کہ آیت اللہ جوادی آملی اور آیت اللہ مکارم شیرازی اسے واجب قرار دیتے ہیں جبکہ آیت اللہ مصباح یزدی نے کہا ہے کہ میں شریعت کی بات نہیں کرتا البتہ عقل کی یہی بات ہے کہ الیکشن میں حصہ لیا جائے۔ پھر آغا نے اس بات کی تاکید کی کہ پاکستان میں علماء، جو اہل عقل ہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ سب کو اتحاد کے ساتھ ملکر چلنا چاہیے۔ آغا بہاؤالدینی مزید فرماتے ہیں کہ پاکستان میں کئی ایسے ادارے، تنظیمیں ہیں جو ظاہراً خوشنما پھل کی طرح ہیں لیکن اندر سے کیڑے کی طرح ولایت کو کھا رہی ہیں۔
ہماری پیشکش