QR CodeQR Code

زبان سنبھال کے۔۔۔۔

15 May 2013 21:17

اسلام ٹائمز: اگر میرا تعلق مجلس وحدت المسلمین سے ہے تو کیا یہی روتا رہوں کہ اختر شیرازی کا ووٹ بینک تھا اور اسکے خلاف دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں بھائی ہم نے غلط سمجھا تھا ہزاروں ووٹوں کی بات ہوتی تو سوچا بھی جاتا لیکن یہاں تو بات ۴۵۰ اور ۵۰۰ ووٹوں سے آگے ہی نہیں بڑھی۔ اور اگر میں سید جواد کے پیروان ناب میں سے ہوں تو ایم ڈبلیو ایم اور تحریک اس نظام میں سانس بھی لیں تو دونوں طاغوتی ایجنٹ۔۔۔۔ ٹھیک ہے کہ بعض گروہوں کی حرکات کبھی کبھار ملت کے لئے بہت زیادہ نقصان کا باعث ہوتی ہیں لیکن شاید اس سے زیادہ نقصان فتنہ انگیزی ہے لہذا تحمل و صبر سے کام لیں اپنی رائے دوسروں کو دیں لیکن دوسروں کی عزت مجروح نہیں کریں۔


تحریر: محمد عیسٰی

امیرالمومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں دو عورتوں کا ایک بچے کے قضیہ پر اختلاف ہوا۔ دونوں اس بچے کی ماں ہونے کی دعویدار تھیں۔ امام علی علیہ السلام نے دونوں کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ اس بچے کے دو ٹکڑے کر دو اور دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دیدو۔ امام کا یہ کہنا تھا کہ ایک عورت نے روتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ مجھے نہیں چاہیئے ہے آپ اس عورت کو دیدیجئے لیکن اس کے ٹکڑے نہیں کریں۔ جسکی بنا پر امام نے اس عورت کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس عورت کو اپنے حق سے زیادہ اس بچے کی فکر تھی، جو اسکی ممتا کا بھی تقاضا تھا۔ ہماری ملت کی بھی کچھ ملتی جلتی کہانی ہے گرچہ دو تین دعویدار نمایاں ہیں لیکن دعویداروں کی اصل تعداد کچھ زیادہ ہے۔ ملت کے دو یا دو سے زیادہ ٹکڑے ہو جائیں یہ اپنے مبینہ حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، جھوٹ کی نسبت دینا تو جیسے خون میں رچ بس گیا ہے۔ ابھی الیکشن کو ہی لے لیجئے، وہ جملہ کہ جو ایک جانبدار عالم سے منسوب کیا گیا جس کی انہوں نے تردید کی کہ "لدھیانوی جیت جاتا ہے تو جیت جائے کوئی قیامت تھوڑی آ جائےگی۔" واقعی یہ جملہ کچھ دل پر لگا کیونکہ جب ایک دوسرے کی توہین اور ملت میں انتشار پھیلنے سے قیامت نہیں آتی تو یقینا لدھیانوی کے جیتنے سے بھی نہیں آئیگی۔ 

جھنگ کہ مسئلہ میں چاہے وہ اظہر کاظمی صاحب والی سیٹ کا مسئلہ ہو، شیخ محمد اکرم یا اختر شیرازی والی سیٹ کا دونوں طرف سے بعض چیزیں غیر مناسب اور ملت میں افتراق کا باعث بنیں۔ ایک دوسرے کی طرف منسوب باتیں اور اسکی تردید، واقعاً افسوس ہوتا ہے کہ معمم حضرات ایسے کام انجام دے رہے ہیں۔ اگر اختر شیرازی کا ووٹ بینک نہیں تھا تو اس میں آپ کی سیاسی بصیرت کی غلطی ہے، اور اگر نیشنل اسمبلی کی سیٹ پر ایم ڈبلیو ایم گیلانی کی ہمایت کر رہی تھی تو پی پی پی کی پوری پاکستان میں حمایت کرنے والی اسلامی تحریک اس گیلانی کو شیخ محمد اکرم کے حق میں دستبردار کیوں نہیں کرا سکی۔ اسکے علاوہ بہت ساری باتیں ہیں جس پر ملت کے تحفظات ہیں۔ خیر غلطیاں ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی، اختلاف نظر تھا ہے اور رہے گا۔۔۔۔ بلکہ شاید رہنا بھی چاہیئے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اختلاف کا نتیجہ ہمیشہ کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے سے جھوٹ کی نسبت دینا ہوتا ہے، خیر اب تو بات اور آگے چلی گئی ہے، اب علماء پاکستان کی سرزمین پر الیکشن لڑنے والوں کو خدا کی ربوبیت کے منکرین قرار دے رہے ہیں۔۔۔ 

کبھی کبھار ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کون صحیح ہے۔۔۔ ایسے مسائل سے مراد کلی مسائل نہیں بلکہ جزئی مسائل۔۔۔ جیسے کوئٹہ کہ گذشتہ سانحات، جھنگ کا مسئلہ اور اس طرح کے دیگر مسائل۔ مثلاً اگر میرا تعلق سید ساجد علی نقوی کی قیادت کے معتقدین میں سے ہے تو مجھے مجلس کی طرف سے لی جانے والی سانس پر بھی اعتراض ہوتا ہے، کوئٹہ کے سانحہ پر ساری کوتاہیوں کا نزلہ ایم ڈبلیو ایم پر، جبکہ وہاں جو اس کے علاوہ علماء موجود تھے انکی کارکردگی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا رہا کہ بھائی اگر انہوں نے غلط کیا تو دوسرے کیوں خاموش تھے، بلکہ شہداء کے خانوادوں کے نام سے مجلس کے علماء کی توہین کی گئی، کہ بک گئے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو آج سرزمین شہداء سے ایم ڈبلیو ایم کا امیدوار کامیاب نہیں ہوتا وہ بھی ہزارہ برادری کے ایک لسانی گروہ ایچ ڈی پی کے خلاف۔
 
یا اگر میرا تعلق مجلس وحدت المسلمین سے ہے تو کیا یہی روتا رہوں کہ اختر شیرازی کا ووٹ بینک تھا اور اسکے خلاف دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں بھائی ہم نے غلط سمجھا تھا ہزاروں ووٹوں کی بات ہوتی تو سوچا بھی جاتا لیکن یہاں تو بات ۴۵۰ اور ۵۰۰ ووٹوں سے آگے ہی نہیں بڑھی۔ اور اگر میں سید جواد کے پیروان ناب میں سے ہوں تو ایم ڈبلیو ایم اور تحریک اس نظام میں سانس بھی لیں تو دونوں طاغوتی ایجنٹ۔۔۔۔ ٹھیک ہے کہ بعض گروہوں کی حرکات کبھی کبھار ملت کے لئے بہت زیادہ نقصان کا باعث ہوتی ہیں لیکن شاید اس سے زیادہ نقصان فتنہ انگیزی ہے لہذا تحمل و صبر سے کام لیں اپنی رائے دوسروں کو دیں لیکن دوسروں کی عزت مجروح نہیں کریں اور برعکس دوسروں کی رائے سمجھ نہیں آ رہی تو قبول مت کریں کون آپ کے سر پر ڈنڈا لیکر کھڑا ہوا ہے لیکن اسکے بزرگوں اور قائدین پر تہمتیں تو مت لگائیں۔ میرا ذاتی خیال جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے یہ ہے کہ ہمارے ان تین بڑے اور صاحب نظر حلقوں اور انکی قیادتوں کے محاذ الگ الگ ہیں اور اگر سب اپنی حد میں رہ کر کام کریں تو کسی قسم کے ٹکراو کو روکا جا سکے گا۔ جہاں تک مشاہدہ کیا علامہ سید ساجد علی نقوی اور ان کی قیادت کے معتقدین پاکستان میں تشیع کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ انکے منابع کے مطابق پاکستان میں تشیع کی نابودی کے لئے کڑوڑوں ڈالر و ریال خرچ کئے جا رہے ہیں اور ابھی تشیع اس پوزیشن میں نہیں آئی کہ ان سازشوں کا تنھا مقابلہ کر سکے یا کم از کم بعنوان تشیع اس ملک میں ہونے والی جنگ میں کودا جا سکے لہذا دوسری پارٹیوں کا سہارا لیکر یا تعلقات کے ذریعے اپنی ساکھ کو باقی رکھا جائے۔ 

ایم ڈبلیو ایم کے قائدین کی نظر میں تشیع کو اب اپنی بقا کی جنگ سے نکل کر اٹیکنگ پوزیشن اختیار کرنی چاہیئے کیونکہ اگر اس ملک میں دیوبندی جو تشیع سے کم ہیں ایک مضبوط پوزیشن بنا سکتے ہیں تو ہم یہ کام کیوں نہیں کرسکتے؟؟؟ ہمیں اپنا تشخص بنانے کے لئے کسی اور کی ضرورت نہیں مکتب نے جس طرح دنیا میں اپنا تشخص برقرار رکھا ہوا ہے ہمیں بھی اسکی ضرورت ہے البتہ ہمیں اہل سنت سمیت دیگر حلقوں سے تعلقات برقرار رکھنے چاہیئے تاکہ ہمیں کوئی اپنے لئے خطر نہ سمجھے۔ تیسرا نظریہ جس کے روح رواں سید جواد نقوی ہیں وہ اس سے بھی اوپر کی بات کرتا ہے کہ یہ نظام کیونکہ فاسد ہے لہذا اس میں رہتے ہوئے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے پس اس نظام کو تبدیل کرنا چاہیئے اور یہ کام تنظیم کے دائرہ میں رہ کر نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ کام امام کا ہوتا ہے اور امام کسی تنظیم کا نہیں بلکہ امت کا ہوتا ہے۔ 

تینوں گروہوں نے اپنی اپنی کوشش اور اسلام و تشیع کی محبت میں جو کچھ کرسکے انجام دیا اس میں کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جن کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن کسی کے خلوص پر شک کرنا شاید جایز نہ ہو۔ اگر یہ تینوں حلقے اپنی اپنی حد میں رہ کر اس ھدف کے لئے کوشاں ہو جائیں اور ایک دوسرے کے خلاف بولنے سے پرہیز کریں تو شاید واقعی اس نظام کو تبدیل کیا جا سکے گا، کیونکہ جب تک تشیع کا اپنا تشخص و وجود پارلیمنٹ اور وفاق میں نہیں ہوتا تب تک سید ساجد علی نقوی کی حکمت عملی ہی کام آئے گی کہ کچھ نہ کچھ ساکھ برقرار رہے۔ اسی طرح جب تک اس نظام کے خلاف اور نظریہ امام و امت کے اسباب فراھم نہیں ہو جاتے جب تک اپنے تشخص سے ہی کام چلا لینا چاہیئے اور حقیقی تبدیلی کے لئے کوشاں رہنا چاہیئے، پس جو جس روش کو بہتر سمجھتا ہے اس ملک میں حقیقی نظام اسلامی کے نفاذ کے لئے وہ اس ملت کی خدمت کرے اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کام کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے تاکہ ملت کو کسی قسم کے انتشار و افتراق کا سامنا نہ ہو لیکن زبان سنبھال کے ۔۔۔۔ کیونکہ جناب امیر علیہ السلام کے مطابق "زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ آزاد چھوڑو گے تو کھا جائیگا"۔۔۔ صرف آپ کو نہیں پوری ملت کو۔۔۔


خبر کا کوڈ: 264277

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/264277/زبان-سنبھال-کے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org