0
Monday 31 May 2010 11:58

القاعدہ قیادت پاکستان میں ہے،فوجی ایکشن سے زیادہ اسلام آباد کے تعاون کیلئے بے چین ہیں، امریکی ایڈمرل

القاعدہ قیادت پاکستان میں ہے،فوجی ایکشن سے زیادہ اسلام آباد کے تعاون کیلئے بے چین ہیں، امریکی ایڈمرل
کابل:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مائیک مولن نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ القاعدہ قیادت پاکستان میں مقیم ہے،تاہم فوجی ایکشن سے زیادہ اسلام آباد کے تعاون کیلئے بے چین ہیں۔القاعدہ اور طالبان کیخلاف پاکستانی تعاون میں اضافہ خوش آئند ہے اور ہم پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر القاعدہ اور طالبان قیادت پر دباؤ بڑھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ہم اس خطے سے متعلق شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ القاعدہ قیادت پاکستان میں موجود ہے اور ہم پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر ان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔تاہم اس کے علاوہ کسی اور منصوبے یا آپریشنز کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ 
ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مائیک مولن نے کہا کہ ہم افغانستان میں طالبان کی دراندازی روکنے کیلئے پاکستان پر حملے کی بجائے اسلام آباد کے تعاون کے لیے زیادہ بے چین ہیں۔پاکستانی سرحدی علاقوں سے آنے والے القاعدہ اور طالبان جنگجوؤں کے خاتمے کیلئے پاکستانی افواج کے تعاون میں اضافہ ہوا ہے،جو خوش آئند ہے۔تاہم میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکا پر حملے کی صورت میں پاکستان پر حملے کیلئے اسلام آباد کو آگاہ کیا گیا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ نیٹو طالبان کے گڑھ قندھار پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے۔جو افغانستان میں ہماری کامیابی کیلئے اہم ہے اور اس سے پتہ چلے گا کہ ہماری حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہےایران اور شمالی کوریا کے حالات میں بہتری کیلئے اقوام متحدہ کی کوششوں سے پُرامید ہیں۔ 
دوسری طرف افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کے کمانڈر نے الزام لگایا ہے کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ بعض طالبان جنگجوؤں نے ایران میں تربیت حاصل کی ہے،تاہم جنرل اسٹینلے میکرسٹل کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مغربی ہمسایہ ایران نے عام طور پر جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں افغان حکومت کی مدد کی ہے۔اتوار کو پریس کانفرنس میں یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ کتنے لوگوں نے ایران میں تربیت حاصل کی ہے۔میکرسٹل نے رپورٹروں پر واضح کیا کہ افغانستان کی لڑائی امریکی صدر کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن جولائی 2010ء سے بھی آگے جائے گی،جبکہ بارک اوباما فوج کی کمی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔افغان صدر حامد کرزئی سے حالیہ ملاقات میں بارک اوباما نے اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی توثیق کی ہے،جو جولائی 2011ء سے بھی آگے جانے کا راستہ ہے۔میکرسٹل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ صدر اوباما کا 2011ء میں امریکی فوج میں کمی کے فیصلے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کامیابی کا پیمانہ دنوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں طے ہو گا۔

خبر کا کوڈ : 27143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش