0
Wednesday 12 Jun 2013 23:14

35 کھرب 91 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، 17 ارب خسارہ، تنخواہیں نہ بڑھیں، پینشن میں 10فیصد اضافہ

35 کھرب 91 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، 17 ارب خسارہ، تنخواہیں نہ بڑھیں، پینشن میں 10فیصد اضافہ
اسلام ٹائمز۔ آئندہ مالی سال کیلئے 35 کھرب 91 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کا اعلان کیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، پنشن میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، وزیراعظم اور وفاقی وزراء کے صوابدیدی اخراجات ختم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے اخراجات میں 30 فیصد جبکہ وزیراعظم آفس کے اخراجات 44 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سال 2013-14ء کا بجٹ پیش کیا۔ نئے مالیاتی سال کیلئے وفاقی بجٹ میں بجلی کی سبسڈی کیلئے 220 ارب روپے جبکہ انکم سپورٹ پروگرام کیلئے بھی 75 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، وزیراعظم آفس کیلئے نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، بجلی کیلئے سبسڈی 364 ارب روپے سے کم کرکے 240 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ نئے بجٹ کے مطابق ٹیکس آمدن 24 کھرب 75 ارب روپے رکھی گئی ہے جبکہ 822 ارب روپے نان ٹیکس آمدنی سے حاصل ہوں گے۔ وفاقی حکومت جاری اخراجات پر 28 کھرب 29 ارب اور ترقیاتی اخراجات پر 540 ارب روپے خرچ کرے گی، وفاق ٹیکس آمدن سے صوبوں کو 15 کھرب روپے فراہم کرے گا، 11 کھرب 54 ارب سود اور ادائیگیوں کی مد میں خرچ کئے جائیں گے۔
 
انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 75 ارب روپے جبکہ غربت میں کمی کیلئے 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یوریا کھاد کی درآمد کیلئے سبسڈی 30 ارب روپے رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم کی قرض اسکیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس مقصد کیلئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 5 لاکھ روپے تک قرضہ حسنہ دیئے جائیں گے، پسماندہ علاقوں کے طلبہ کیلئے فیس ادائیگی اسکیم اور وزیراعظم کی لیپ ٹاپ اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ چھوٹے کاررباری قرضوں کیلئے 20 لاکھ روپے 8 فیصد شرح سود پر دینے کی تجویز ہے، دفاع کے شعبے کیلئے 627 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالی خسارہ آئندہ مالی سال بھی پیچھا نہیں چھوڑے گا، 16 کھرب 51 ارب روپے اس کی نذر ہوجائیں گے۔ نئی گاڑیوں کی خریداری، بینکوں سے رقم نکلوانے، پان چھالیہ اور کولڈ ڈرنکس پر بھی ٹیکس وصولی کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔
 
نئے مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔ ایک حاجی سے ٹیکس کی وصولی 3 ہزار سے بڑھا کر 5 ہزار کرنے کی تجویز بھی دی گئی، تنخواہ دار طبقے کیلئے 6 ٹیکس سلیب میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، ان سلیبس میں 40 لاکھ روپے سالانہ سے اوپر اور 70 لاکھ روپے تک کی آمدن والے شامل ہوں گے، اس سلیب کے تحت سالانہ 70 لاکھ روپے کے اوپر 14 لاکھ 12 ہزار 500 روپے ٹیکس کی ادائیگی کے ساتھ 30 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ بینکوں سے 50 ہزار روپے تک کیش نکالنے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 0.3 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، کمپنیوں کو ایک فیصد ٹیکس کی چھوٹ دینے کے بعد شرح 34 فیصدکرنے کی تجویز دی گئی ہے، کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 3 فیصد اضا فہ تجویز کیا گیا ہے۔ بجٹ میں غیر رجسٹرڈ سپلائیز پر 2 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی، چھالیہ پر ڈیوٹی کی شرح 15 سے بڑھا کر 20 فیصد، پان پر ڈیوٹی 200 روپے فی کلو سے بڑھاکر 300 روپے کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں، نئی گاڑیوں کی خریداری پر بھی ٹیکس ہوگا، یعنی 1300 سے 1600 سی سی گاڑی خریدنے پر 30 ہزار کے بجائے 50 ہزار ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔ 1000 سے 1300 سی سی تک گاڑی کی خریداری پر 12 ہزار کے بجائے 30 ہزار ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ہزار سی سی تک گاڑیوں کی خریداری پر 20 ہزار روپے ٹیکس کی تجویز ہے۔

 دیگر ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کے لیے قومی اسمبلی میں تین ہزار پانچ سو اکیانوے ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ خسارے کا تخمینہ سولہ سو چوہتر ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ریٹائرد ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی سیاسی حکومت کو ورثے میں ایک ٹوٹی پھوٹی معیشت ملی ہے، تاہم وہ شکایات کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور ملک کی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے خدوخال بیان کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا بیرونی ذرائع سے حکومت 576 ارب روپے قرض حاصل کرے گی جبکہ مقامی بینکوں سے 975 ارب روپے قرض لیا جائے گا۔ 
آئندہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کا حجم گیارہ سو پچپن ارب روپے ہے، جس میں سے پانچ سو چالیس ارب روپے وفاقی حکومت خرچ کرے گی۔ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے وسط مدتی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، جس کے تحت دو ہزار پندرہ تک مالیاتی خسارہ چار فیصد کی سطح پر لایا جائے گا۔ اس وقت جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب نو فیصد سے کم ہے، جسے آئندہ پانچ سال میں پندرہ فیصد تک لے جایا جائے گا۔ ریلویز کی بحالی کے لیے حکومت نے اکتیس ارب روپے مختص کیے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت ملک کے قرضوں کا حجم چودہ ہزار دو سو چوراسی ارب روپے ہو گیا ہے۔ حکومت نے پنشن میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد مقرر کی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 273084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش