0
Thursday 13 Jun 2013 12:18

جماعت اسلامی کراچی کے تحت ”جعلی انتخابی مینڈیٹ اور کراچی کا امن“ کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس

جماعت اسلامی کراچی کے تحت ”جعلی انتخابی مینڈیٹ اور کراچی کا امن“ کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس
رپورٹ: ایس زیڈ ایچ جعفری

حالیہ عام انتخابات میں کراچی میں ہونے والی تاریخ کی بدترین انتخابی دھاندلی اور شہر قائد میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کے حوالے سے ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کراچی کے تحت ”جعلی انتخابی مینڈیٹ اور کراچی کا امن“ کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تاج حیدر، پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنماء نادر اکمل لغاری، جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو، جماعت اسلامی کراچی کے قائم مقام امیر برجیس احمد، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماء مستقیم نورانی، پاکستان سنی تحریک کے مطلوب اعوان، پی ڈی پی کے بشارت مرزا، سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے غلام شاہ، پاکستان عوامی تحریک کے مظہر راہوجہ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے افضل سردار، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے باچا خان، عوامی مسلم لیگ کے محفوظ یار خان اور دیگر نے خطاب کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ کانفرنس کی نظامت کے فرائض جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری مسلم پرویز نے ادا کئے۔ اس موقع پر نائب امیر کراچی راجہ عارف سلطان، سیکرٹری نسیم صدیقی، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری و دیگر بھی موجود تھے۔

آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کہا کہ جمہوریت اور امن کراچی کے عوام کا حق ہے، گن پوائنٹ پر انجینئرڈ الیکشن ملک کی بقاء اور سلامتی کے ساتھ مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس انتخابات کے انعقاد سے قبل کراچی میں تمام جماعتوں نے جو جدوجہد کی اور جن چیزوں کی نشاندہی کی گئی انہیں مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم کیا گیا۔ کراچی میں جعلی مینڈیٹ مرکز اور سندھ کی حکومت کو بلیک میل کرکے حکومت کا حصہ بننا چاہتا ہے کراچی کے حالات کی خرابی اسی چیز کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ ﴿ن﴾ کی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ سندھ بالخصوص کراچی میں امن کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کو شفاف اور آزادانہ انتخابات کا حق ملنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ لندن کی اے پی سی میں کہا گیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں ایم کیو ایم کو ہر طرح منانے اور چلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی طور پر وہی اختیار ملنا چاہئے جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو ایک آزاد خود مختار اور آئینی طور پر حیثیت دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورنر سندھ کو اب تو سندھ کے لئے ناگزیر نہیں ہونا چاہئے ان کی کارکردگی کو دیکھنا چاہئے کہ آخر کیوں ان کو گورنر رکھا جائے۔ سندھ میں سندھ کے عوام کے جذبات کی حقیقی نمائندگی کرنے والے اہل فرد کو گورنر بنایا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء تاج حیدر نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہاں کی مردم شماری کو دیکھ لیا تھا کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے اس لئے ہمیں اس کو منسوخ کرنا پڑا۔ ووٹر لسٹیں مستقل پتے کی بنیاد پر بنائی گئیں جب کہ یہ طے ہوا تھا کہ یہ موجودہ پتے پر بنائی جائیں گی مگر ایسا نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹر مشینوں کی بھی بات ہوئی مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ اصل میں جس ادارے کا جو کام ہے وہ اسے کرنا چاہئے، ہر کام کے لئے فوج کو نہیں بلانا چاہئے۔ ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ ووٹر لسٹوں کی درستگی کے لئے فوج آئی اور اس نے کیا کیا؟ تاج حیدر نے مزید کہا کہ کراچی میں دہشتگردوں اور دہشتگردی کے عنصر کے خلاف تمام جماعتوں کو متحد ہونا چاہئے تھا۔ ہماری کچھ مجبوریاں ہیں کیونکہ ہم ملک اور جمہوریت کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ 18 جماعتوں کے مطالبے پر فوج کو بلایا گیا مگر ہم سب نے دیکھ لیا کہ فوج نے کیا کیا اور کس کو کامیاب اور کس کو ناکام کرایا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں میں قانون شکنی کی ہے۔ جعلی ٹھپوں میں پلاسٹک کے انگھوٹھے بنائے گئے الیکشن ٹریبونل کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔

جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی میں 11 مئی کو جو کچھ ہوا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کراچی کے عوام کو اس کا حق دلانے کے لئے دوبارہ انتخابات کرانے کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن میں بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے گورنر کو فی الفور ہٹایا جائے اس لئے کہ کراچی میں حالات کی خرابی کی ذمہ داری میں ان کا کردار بہت نمایاں اور واضح ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی اس حوالے سے از خود نوٹس لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے قائم مقام امیر برجیس احمد نے کہا کہ کراچی میں یہ جدوجہد کی جا رہی تھی کہ کراچی میں جعلی اور ٹھپہ مینڈیٹ کو روکا جائے مگر افسوس کہ مقتدر قوتیں کچھ اور چاہتی تھیں ان کے پس پردہ مقاصد کیا تھے وہ عوام کے سامنے آنے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے بائیکاٹ سے جعلی مینڈیٹ کی حقیقت پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے اور عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے چہرے بے نقاب ہو گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنماء نادر اکمل لغاری نے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو سیاسی کردار ادا کرنے کے لئے متحد اور متفق ہونا پڑے گا۔ ملک توڑنے کی باتیں کرنے والوں کو روکنا اور پکڑنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعمیری سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور جن جماعتوں کی اسمبلی میں نمائندگی نہیں وہ بھی کم اہم نہیں ہیں ہم ان کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماء مستقیم نورانی نے کہا کہ حکمرانوں کی دہشت گردوں سے دوستیاں عوام کو مہنگی پڑی ہیں۔ بلیک میلنگ کی سیاست نے کراچی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی حکومت کے دامن پر سابقہ دور حکومت کے داغ نمایاں ہیں ان کو دھونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کراچی کے انتخابات میں فوج، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا کردار آج بھی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ بشارت مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ جعلی مینڈیٹ کے جبر سے عوام کو نکالنے کے لئے ایک مضبوط اور مشترکہ لائحہ عمل اختیارکرنا چاہئے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے نظام کو خرابیوں سے دورکرنا چاہئے۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنماء مطلوب اعوان نے کہا کہ ہم نے الیکشن سے قبل جو مطالبات کئے تھے وہ درست اور بروقت تھے ہمیں ان کے منظور کرانے کے لئے جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نومنتخب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ دہشت گردوں اور سیاسی بلیک میلروں کو حکومت میں شامل نہ کریں۔

سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے رہنماء غلام شاہ نے کہا کہ مسائل کی نشاندہی سطحی طریقے سے نہیں کرنا چاہئے۔ عوام کو دہشتگردی سے دوچار کرنے، مینڈیٹ کو یرغمال بنانے والوں کے پیچھے ریاست کی قوت ہوتی ہے اس کے تانے بانے کہیں اور جا کر ملتے ہیں۔ کراچی کے حالات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ محفوظ یار خان نے کہا کہ ہم لوگوں نے پہلے بھی جعلی مینڈیٹ کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اب ہمیں یہ عزم اور عہد کرنا ہے کہ یہ جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی کی سنگین صورتحال پر نظر رکھنی چاہئے۔ مظہر راہوجہ نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا اس کو مقتدر حلقوں اور ریاست کی حمایت حاصل تھی۔ افضل سردار نے کہا کہ ہم جن لوگوں سے اپنے مطالبات پورے کرنے کی بات کرتے ہیں اصل میں تو حالات خراب کرنے کے ذمہ دار یہ کرتا دھرتا ادارے اور بیورو کریسی ہی ہیں ان سے حالات کو بہتر کرنے کی توقع نہیں۔ باچا خان نے کہا کہ 11 مئی کو کراچی میں جو دھاندلی اور پولنگ اسٹیشن پر قبضے ہوئے وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہاں یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے مگر آج تک ایسا کرنے والوں کو روکا نہیں گیا۔ دہشتگردوں، غنڈوں کو کھلی آزادی اور چھوٹ ملی ہوئی ہے، یہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔

جماعت اسلامی کے تحت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ:
جماعت اسلامی کے تحت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات ہو گئے اور حکومتیں بھی بن گئیں۔ شور ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کی باز گشت سنی گئی، پورے ملک کی دھاندلیوں کو میڈیا کے ذریعے دیکھا گیا سرحد میں جو کچھ ہوا وہ بھی اسٹبلشمنٹ کا عظیم کارنامہ ہے اور یہ وہ انتخاب ہے جس کیلئے ہر سیاسی جماعت معترض ہے اور احتجاج کر رہی ہے۔ مگر کراچی وہ شہر ہے جس کے لئے خود الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ یہاں انتخابات منصفانہ اور شفاف نہیں ہوئے اور یہ فرمان الیکشن والے روز یعنی 11 مئی کو جاری ہوا۔ اگر منصف خود یہ کہے کہ میں انصاف نہیں دے پا رہا تو پھر فریاد کس سے اور کیسے ہو ؟ اس دھاندلی کے نتیجے میں جو اراکین اسمبلی 11 مئی کو منتخب ہوئے وہ کیا کریں گے یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ ملک کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ ہی مقصد انتخاب ہونا چاہئے۔ میڈیا نے بھی خوب خوب اس جھرلو انتخاب کی حقیقت کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا۔ ڈبے ایک دن پہلے سر شام ہی بھرے گئے۔ انتخابی عملے کو پولنگ اسٹیشن پر نہیں پہنچے دیا گیا۔ جعلی ٹھپے لگاتے ہوئے لوگ پکڑے گئے اور گرفتار ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی مہریں پولنگ اسٹیشن سے باہر ٹھپے لگانے کے لئے میسر تھیں۔ اسی طرح بیلٹ کی کتابیں بھی پکڑی گئیں۔ الیکشن کمیشن ان انتخابات کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ کراچی کے اس جعلی مینڈیٹ کو چلتے ہوئے ایک چوتھائی صدی گزر رہی ہے اور اس دوران کراچی خون میں لت پت ہے۔ ملکی معیشت کا سہارا بننے والا کراچی آج کہاں ہے؟ ریونیو کا تین چوتھائی دینے والا کراچی آج وہ کچھ نہیں دے پا رہا ہے۔ یہاں جو امن اور بھائی چارے کی فضا تھی آج ناپید ہے اور کراچی علاقوں میں بٹ گیا ہے۔ علاقے بھی لسانیت کی بنیاد پر وجود میں آچکے ہیں۔ اسی حوالے سے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ یہاں علاقائی حد بندیاں دوبارہ ہونی چاہییں مگر یہ بھی ہائی جیک کیا گیا اور دکھاوے کے لئے اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے جعلی مینڈیٹ حاصل کرنے والوں نے انتخابی فہرستوں کی طرح اسے بھی اپنے مقصد اور مطلب کے لئے چند نشستوں پر ردوبدل کرا کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا مذاق اڑایا۔ اسی طرح ہر انتخابی عمل کو جعلی انتخابی فہرستوں، غلط حد بندیوں اور عملہ کو خوفزدہ کرکے ڈبے بھرنے سے انتخابی نتائج حاصل کرکے فخر جتایا گیا اور نتیجتاً جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ اس طرح سے یہ با ت کہی جا سکتی ہے کہ کراچی میں انتخابات تو ہوئے ہی نہیں یہاں عوام ہار گئی اور اسٹبلشمنٹ جیت گئی۔ یہاں بے روز گاری، بھوک، افلاس، اخلاقی گراوٹ، لوٹ مار، بھتہ خوری، لینڈ مافیا، پرچی مافیا وجود میں آئے ہیں پھر ان سب معاملات کی سرپرستی حکومتی مجبوریاں رہیں کہ حلیف درکار تھے۔ مگر ایک گزشتہ دور بھی گزرا جس میں اس وقت کے صدر نے فرمایا کہ یہ ان کی عوامی قوت ہے۔ اس نام نہاد عوامی قوت نے بھی انھیں اپنا لیڈر اس لئے مانے رکھا کہ ان کی حکومتی مجبوری تھی کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے نتیجے میں ان کی لوٹ مار بھی خوب رہی۔بالآخر اس لوٹ مار میں دوسرے بھی شریک ہوئے اور ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں قتل و غارت گری اور بڑھ گئی اور اپنے اپنے علاقوں پر قبضے کی ایک نئی جنگ شروع ہوئی اور او سطاً دس لاشیں روز گریں۔
 
مشترکہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ اب جبکہ نئی حکومت وجود میں آچکی ہے۔ بہت واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ سندھ حکومت کو بھی اور مرکزی حکومت کو بھی۔ لہٰذا ان حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے ہر طریقے کو اختیار کیا جائے۔ مجرموں کو پکڑا جائے۔ فرد جرم عائد کی جائے۔ تحقیق کے نتیجے میں انھیں سزا دی جائے اور امن کو پروان چڑھایا جائے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ سب واضح کر چکی ہے اور ملزمان کی نشاندہی بھی۔ اس کے لئے پولیس کی تطہیر بھی ضروی ہے اور ہر سطح پر انتظامیہ کے محاسبہ کی بھی۔ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی بھی اور آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کی بھی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کو دستوری لحاظ سے مکمل آزادی اور مالی اختیارات ملنے چاہیں۔ یہاں موجود تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرے تاکہ کراچی کا شہری سکھ اور سکون کا سانس لے۔ گورنر سندھ کو بھی فارغ کیا جانا چاہئے کہ بدامنی کے سارے ڈانڈے وہیں جا کر ملتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 273404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش