0
Monday 17 Jun 2013 09:58

ملک میں قیام امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کی میز بچھائی جائے، منورحسن

ملک میں قیام امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کی میز بچھائی جائے، منورحسن
اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو فوری طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کے تعاون سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہئے اور ملک میں جاری ملٹری آپریشن کے خاتمے، لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کردینے اور ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ ہمارے ملکی معاملات میں جب تک امریکی مداخلت جاری رہے گی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں منعقدہ جماعت اسلامی لاہور کے ذمہ داران اور ارکان کے مشترکہ اجتماع سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اجتماع سے سیکریٹری جنرل لیاقت بلو چ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر اور امیر جماعت اسلامی لاہور میاں مقصود احمد نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر محمد کمال، وقار ندیم وڑائچ، ڈاکٹر ذکراللہ مجاہد، محمد انور گوندل بھی موجود تھے، اجتماع میں لاہور سے قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹو ں پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں نے بھی شرکت کی۔ 

منورحسن نے مزید کہاکہ ہم سابقہ اور موجودہ حکومت کو بار بارتوجہ دلا چکے ہیں کہ ملک میں قیام امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کی میز بچھائی جائے۔ امریکہ خود تو طالبان سے مذاکرات کرتا ہے مگر ہمیں ان سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے اور جب مذاکرات کی طرف پیش رفت ہوتی ہے تو مسلسل ڈرون حملے کرکے مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کردیا جاتا ہے۔ جس طرح سابقہ حکومت نے امریکی مداخلت کے خاتمے، خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور طالبان سے مذاکرات کرنے کی پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں پر عمل نہیں کیا، موجودہ حکومت اس رویے کو بدلتے ہوئے متفقہ قومی موقف پر عملدرآمد کو یقین بنائے۔ سید منورحسن نے گزشتہ روز کوئٹہ اور زیارت کے واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے انہیں انسانیت سوز قرار دیا اور کہا کہ ہر معاشرے میں خواتین کی عزت کی جاتی ہے لیکن یہاں درندوں نے تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کو جس طرح بربریت اور دہشتگردی کا نشانہ بنایا ہے اس سے پاکستانی عوام کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ زیارت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ جو ایک تاریخی ورثہ ہے کو دھماکوں سے اڑانے والے ملک کے بدترین دشمن ہیں۔ اس واقعہ میں بیرونی خصوصاً بھارتی ''را'' کے ہاتھ ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
 
اُنہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو قائد اعظم کی ریذیڈنسی پر حملے اور کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کو فوری ٹیک اپ کرنا ہوگا اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے صوبائی حکومتوں سے مل کر سنجیدہ لائحہ عمل بنانا ہوگا جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سر فہرست رکھنا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کے چند مزید واقعات ہو گئے تو حکومت کیلئے لوگوں کو مطمئن کرنا مشکل ہوجائے گا۔ حکومت امن و امان کے قیام میں سنجیدہ نظر نہیں آتی بلکہ امریکہ کی چیرہ دستیوں سے گھبرائی ہوئی ہے اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے کی بجائے ڈری او ر سہمی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 274207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش