QR CodeQR Code

مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دینے والے پاکستانی طالبان دور حاضر کے خوارج ہیں، سنی اتحاد کونسل کا فتویٰ

2 Jul 2013 18:18

اسلام ٹائمز: لاہور سے جاری پچاس علماء کے متفقہ فتوے میں قرار دیا گیا ہے کہ شرک کے بعد قتل سب سے بڑا گناہ ہے، مساجد، مزارات، اسپتالوں، جنازوں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے جہاد نہیں فساد ہیں۔ مسلم ریاست کیخلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو کچلنا حکومت پر لازم ہے۔


اسلام ٹائمز۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی اپیل پر سنی اتحاد کونسل سے وابستہ پچاس مفتیوں نے کوئٹہ، پشاور اور نانگا پربت میں دہشت گردی کے تازہ واقعات کے تناظر میں خودکش حملوں، قتل ناحق، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اسلام میں خودکش حملے حرام، قتل شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اور غیرملکی مہمانوں کو ہلاک کرنا بدترین جرم ہے۔ مسجدوں، مزاروں، ہسپتالوں، جنازوں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے جہاد نہیں فساد ہیں۔ بے گناہ طالبات، غیر ملکی کوہ پیماؤں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے اسلام کے سپاہی نہیں اسلام کے غدار اور پاکستان کے باغی ہیں۔ دہشت گرد فساد فی الارض کے مجرم اور جہنمی ہیں۔ خود ساختہ تاویلات کی بنیاد پر مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو کچلنا حکومت پر لازم ہے اور اس جہاد میں حکومت کے ساتھ تعاون ہر شہری کا فرض ہے۔

فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی اسلام مخالف اور غلط پالیسیوں کی سزا بے گناہ شہریوں کو دینا خلافِ اسلام ہے۔ امریکہ کے خلاف جہاد کا اصل میدان پاکستان نہیں افغانستان ہے۔ پاکستانی طالبان عہد حاضر کے خوارج ہیں جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور اموال کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ڈرون حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور امریکہ کا ظالمانہ فعل ہیں۔ ڈرون حملے رکوانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ڈرون حملوں کو پاکستان میں دہشت گردی کا جواز بنانا گمراہ کن سوچ ہے۔ افغانی طالبان اپنے وطن کی آزادی کے لیے جارح ملک امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان پیشہ ور قاتلوں کا گروہ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں مرنے والے فوجی، پولیس اہلکار اور دوسرے افراد شہید اور قوم کے ہیرو ہیں۔ دہشت گرد اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ اپنے انتہاپسندانہ اور گمراہ کن نظریات کے باعث سرکاری سکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر انہیں گرانا اور اساتذہ کو قتل کرنا غیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل ہے۔

مفتیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل اور اسلام و پاکستان کا کھلا دشمن ہے، اس لیے امریکہ کے ساتھ تعاون بھی درست نہیں، حکومت امریکہ کے ساتھ تحریری و زبانی معاہدے ختم کرے، امریکہ نواز خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے اور امریکی جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اقامت و تنثیزِ دین کے نام پر انتہا پسندی، نفرت و تعصب، اتراق و انتشار، جبر و تشدد اور ظلم و جبر کا راستہ اختیار کرنے والوں کا دعویٰ اسلام قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے مسلح جنگجو پاکستان کی کمزوری اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کا طرزِ عمل اسلامی جہاد کی رُوح کے منافی ہے۔ اسلام نے جہاد کے ایسے زریں اصولوں سے دنیا کو روشناس کرایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ پاکستانی طالبان اسلامی جہاد کی شرائط، ضابطوں اور اسلام کی تعلیمات کو پامال کر رہے ہیں۔ اسلام جنگ کے دوران بھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کا درس دیتا ہے اور جانوروں اور درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچانے کی ہدایت کرتا ہے۔

فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اسلام امن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔ سچا مسلمان اور حقیقی مومن وہ ہے جو تمام انسانیت کے لیے پیکرِ امن و سلامتی اور امن و آشتی، تحمل و برداشت، بقائے باہمی اور احترامِ آدمیت جیسے اوصاف سے آراستہ ہو۔ اسلام ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ (ص) نے واضح کیا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل اور کسی ایک انسان کی جان کو تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہزاروں لوگوں کی جان و مال کو تلف کرنے کی اجازت دے۔ لہٰذا جو گمراہ لوگ نوجوانوں کو خونریزی اور قتل عام پر اُکساتے ہیں اور جو ان کے کہنے پر ان افعال کے مرتکب ہوتے ہیں، دونوں نہ صرف اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہیں بلکہ دنیا و آخرت میں شدید عذابِ الٰہی کے حقدار ہیں۔

مفتیوں کا کہنا ہے کہ اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ پرامن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے بدلے سزا دی جائے۔ حضور نبی کریم (ص) کا ارشادِ گرامی ہے کہ کسی پرامن غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے بدلے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ریاست کی رِٹ اور اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور کھلے عام اسلحہ لہرا کر ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ کرچکے ہیں، ایسے لوگوں سے مذاکرات کرنے کی بجائے ان کے خلاف ایکشن کیا جائے، جب تک وہ ہتھیار پھینکنے پر رضامند نہ ہو جائیں۔ حکومت ان کے خلاف جنگی اقدام جاری رکھے یہاں تک کہ وہ ریاست کی حاکمیت کے سامنے تابع ہو جائیں اور اپنا دہشت گردانہ طرزِ عمل مکمل طور پر ختم کرکے پرامن شہری بن جائیں اور اپنے جائز مطالبات پرامن اور قانونی طریقے سے پورے کروانے سے حامی ہو جائیں۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ تمام ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جب کوئی مسلح گروہ کسی خود ساختہ تاویل کی بنیاد پر مسلم حکومت کی رِٹ سے نکل جائے تو اس کے ساتھ جنگ کرنا مباح ہے، اس لیے حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے باغیوں کے خلاف جنگ کرے۔

فتویٰ میں کہا گیا ہے پاکستان کے وزیراعظم پاکستان کی سلامتی کے دشمن دہشت گردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کریں اور پوری قوم اس جہاد میں شریک ہو۔ کیونکہ اب پانی سر سے گزرنے لگا ہے اور اگر دہشت گردی کے ناسور کا سر نہ کچلا گیا تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ فتویٰ میں علماء سے اپیل کی گئی ہے کہ حقیقی علماء خطباتِ جمعہ میں اسلام کا حقیقی فلسفۂ جہاد اور جہاد کی شرائط شد و مد سے بیان کریں اور قتل ناحق کے خلاف اور انسانی جان کی حرمت کے حق میں جرأت مندانہ آواز اٹھائیں۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدم رواداری، انتہا پسندی اور تکفیری نعروں پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے علاوہ سب کو کافر، مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں اور اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں۔ ایسے اداروں کی مکمل چھان بین کی جائے اور ان کے نصاب کو چیک کیا جائے، تاکہ انتہاء پسندی کا راستہ روکا جاسکے۔ تمام سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی بھی سکروٹنی کی جائے اور ایسے انتہاء پسند اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو جہاد کے نام پر نوجوان ذہنوں کو دہشت گردی کی طرف موڑ رہے ہیں نیز حکومت انتہاء پسندی، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی کتابوں، رسالوں، کیسٹوں اور سی ڈیز کو ضبط کرے اور ان کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کرے۔

فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باغی گروپوں میں تازہ افرادی قوت کی آمد اور داخلے کے تمام راستے بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ حکومت ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے بے گناہ افراد کے لواحقین کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی تعلیم اور پرورش کا مناسب انتظام کرے۔ گرفتار دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے عدلیہ اور حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور دہشت گردوں کی بیرونی امداد کو روکا جائے۔ فتویٰ جاری کرنے والے مفتیوں میں علامہ محمد شریف رضوی، مفتی محمد اکبر رضوی، مفتی محمد سعید رضوی، مفتی محمد عمران حنفی، مفتی محمد حسیب قادری، علامہ نواز بشیر جلالی، علامہ پیر اطہر القادری، علامہ صاحبزادہ محمد داؤد رضوی، علامہ حامد سرفراز قادری، مفتی محمد یونس رضوی، علامہ ذوالفقار مصطفٰی ہاشمی، مولانا محمد اعظم نعیمی، مفتی محمد رمضان جامی، مفتی محمد کریم خان، علامہ سیّد فدا حسین شاہ حافظ آبادی، مفتی محمد فاروق قادری، مفتی ظفر جبار چشتی، علامہ سیّد شمس الدین بخاری، مولانا محمد علی نقشبندی، علامہ محمد سلیم ہمدمی، علامہ سیّد صابر گردیزی، علامہ ضیاء المصطفیٰ حقانی، مفتی مسعود الرحمن، علامہ صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی، علامہ پیر سیّد محمد اقبال شاہ، مولانا صداقت علی اعوان، مولانا پیر سیّد محمد شاہ ہمدانی، مفتی غلام مجتبٰی غفوری، مفتی اکرام اللہ جنیدی، مفتی عبدالحق دریائی، مفتی عبدالعزیز، مولانا محمد اکبر نقشبندی، مفتی محمد حسین صدیقی، علامہ باغ علی رضوی، مولانا محمد عبداللہ چشتی، مفتی محمد شعیب منیر رضوی، مولانا حافظ محمد یعقوب فریدی، علامہ محمد آصف رضا قادری، مفتی محمد حبیب رضا قادری، مفتی محمد اظہر سعید رضوی، مولانا قاری مختار احمد صدیقی، علامہ منظور عالم سیالوی، علامہ فیصل عزیزی، علامہ محمد اشرف گورمانی، مولانا قاری فیض بخش رضوی، علامہ مفتی شمس الزمان، علامہ سیّد صالح محمد شاہ، مولانا حافظ محمد اکبر جتوئی اور دیگر شامل ہیں۔


خبر کا کوڈ: 278940

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/278940/مسلمانوں-کے-قتل-کو-جائز-قرار-دینے-والے-پاکستانی-طالبان-دور-حاضر-خوارج-ہیں-سنی-اتحاد-کونسل-کا-فتوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org