1
0
Sunday 7 Jul 2013 22:16

سانحہ جامعہ عارف الحسینی، متاثرین کے چٹان کیطرح مضبوط حوصلے!

سانحہ جامعہ عارف الحسینی، متاثرین کے چٹان کیطرح مضبوط حوصلے!
رپورٹ: ایس اے زیدی

21 جون 2013ء کو فرزندان اسلام نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جامعہ شہید عارف حسین الحسینی پشاور میں اکھٹے ہو رہے تھے کہ مسجد کے ہال میں موجود 50 سے زائد نمازیوں کو فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ اسی دوران بعض افراد نے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو ایک 22 سے 24 سالہ لمبے بالوں والا جوان مسجد میں فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوا اور پھر محراب کے قریب پہنچ کر خود کو زور دار دھماکے سے اڑا دیا۔ دھماکہ کیساتھ ہی کئی گھروں کے چشم و چراغ ظاہری طور پر بجھ گئے۔ اس دھماکہ میں 30 سے زائد نمازی زخمی ہوئے جبکہ 19 خوش نصیب نمازیوں نے شہادت کا عظیم مقام پالیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس بزدلانہ کارروائی میں خودکش حملہ آور کے علاوہ مزید 2 دہشتگرد میں شامل تھے۔ حملہ آوروں نے پہلے سکیورٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار اور ایک دوسرے محافظ کو نشانہ بنایا اور خودکش حملہ آور نے راستہ بنا کر مسجد تک رسائی حاصل کی۔ دھماکہ میں زخمی ہونے والے 15 سے زائد افراد کو پہلے ہی روز لیڈی ریڈنگ اسپتال سے طبی امداد کی فراہمی کے بعد فارغ کر دیا گیا، جبکہ شدید زخمی ہونے والے 10 سے زائد افراد چند اسپتالوں میں زیر علاج رہے۔
 
’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اس سانحہ میں زخمی ہونے والے بعض افراد کیساتھ گفتگو کی، جس میں بلند حوصلوں، عزم شجاعت، استقامت، سکون قلب اور مشن حسینی پر پہلے سے بڑھ کر ثابت قدم رہنے جیسے جذبات دیکھنے کو ملے۔ 40 سالہ محمد ابراہیم اس دھماکہ میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ ان کا جسم بری طرح جھلس چکا ہے لیکن حوصلہ ہے کہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ محمد ابراہیم نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے نمائندے کو بتایا کہ دھماکہ کیساتھ ہی کارپٹ اور دیگر چیزوں نے آگ پکڑ لی تھی، اس وجہ سے وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ محمد ابراہیم کے جسم کے کئی حصے آگ کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں، تاہم دشمن اس مزموم کارروائی سے ان کے حوصلوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکا۔ 

علاوہ ازیں اورکزئی سے بنیادی طور پر تعلق رکھنے والے عقیل حسین جامعہ شہید عارف حسین الحسینی کے قریبی علاقہ شہید کالونی کے رہائشی ہیں۔ ان کو پیٹ سمیت جسم کے مختلف حصوں پر زخم آئے ہیں، ان کے دو آپریشن ہوچکے ہیں۔ عقیل حسین اپنے نام کی طرح جواں عزم رکھتے ہیں اور جلد سے جلد صحتیاب ہوکر مشن حسینی (ع) ادا کرنے کی خواہش مند ہیں۔ جب نمائندہ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے بیڈ پر لیٹے ہوئے عقیل حسین سے کہا کہ میں کب آپ کو کھڑے ہو کر سینے سے لگانے آوں تو زخموں سے چور عقیل حسین کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نے جنم لیا اور انہوں نے کہا کہ ’’کل‘‘۔ عقیل حسین چونکہ دھماکہ میں شدید زخمی ہوئے تھے اس وجہ سے ان کی مکمل صحت یابی میں شائد وقت لگے۔ تاہم ان کی ہمت کو دیکھتے ہوئے ’’کل‘‘ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے والی بات کوئی افسانہ نظر نہیں آتی۔ 

سانحہ جامعہ شہید عارف حسین الحسینی میں شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کے ایک قریبی ساتھی دلدار حسین بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ دلدار حسین کو جب اسپتال لایا گیا تو ان کی ایک ٹانگ میں فریکچر تھا، ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کیا، جس کے بعد وہ گھر منتقل ہوگئے ہیں۔ دل کے عارضہ میں مبتلا دلدار حسین کیساتھ نمائندہ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے تفصیلی گفتگو کی۔ اس گفتگو کا موضوع تو دھماکہ تھا، لیکن شہید عارف حسین الحسینی کے اس باوفا ساتھی نے زخموں کے باوجود اپنے محبوب شہید قائد کے ساتھ گزرے لمحات تفصیلی طور پر بیان کئے۔ دلدار حسین نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے ملت کے اتحاد کی ضرورت پر بہت زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشتگرد تو بزدل ہیں، یہ ہمیں شہید یا زخمی کرنے کی کوششیں کرکے صرف اپنا وقت ہی ضائع کر رہے ہیں۔ ہم نہ کبھی ان سے مرعوب ہوئے ہیں اور نہ ہی ہوں گے۔ تاہم ضرورت صرف ملت کے اتحاد کی ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے ہی ہم حالات کا زیادہ بہتری سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ 

اس سانحہ میں زخمی ہونے والا ایک ساڑھے چار سالہ بچہ محمد عزیر بھی ہے۔ جس کا چہرہ اور جسم کے کئی حصے دھماکہ میں جھلس چکے ہیں، اور دیگر زخم بھی ہیں۔ لیکن عزیر کا حوصلہ ہے کہ داد دیئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے ننھے مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ دھماکہ سے خوفزدہ نہیں ہوا، جلد اسی مسجد میں نماز بھی پڑھنے جائے گا، سڑکوں پر حسین (ع) حسین (ع) کی صدائیں بھی بلند کرے گا۔ عزیر نے اپنے معصومانہ انداز میں بتایا کہ دھماکہ بہت زور دار تھا۔ پھر ہر طرف دھواں دھواں ہوگیا۔ جب ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عزیر سے پوچھا کہ وہ اس دھماکہ سے خوفزدہ تو نہیں ہوا؟ تو اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا کہ بابا جان کہتے ہیں کہ میں جلد ٹھیک ہو جاوں گا، اور پھر اپنے دادا جان کیساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھنے جاوں گا۔ 

دھماکہ میں زخمی ہونے والے سید مجاہد حسین زیدی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دھماکہ سے کچھ وقت قبل ہی مسجد پہنچے تھے، چند نوافل ادا کئے، اسی دوران فائرنگ کی آواز سنائی دی اور پھر فائرنگ شدید ہوگئی۔ مسجد کے ہال میں موجود تمام لوگ کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران 22 سے 25 سالہ ایک جوان فائرنگ کرتا ہوا مسجد میں داخل ہوا اور محراب کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ میں 5 سے 6 فٹ ہوا میں بلند ہوا، اور پھر زمین پر آگرا۔ ہر طرف دھواں اور آگ نظر آنے لگی۔ پھر ہر طرف نمازیوں کے جسم کے حصے اور اور خون کے لوتھڑے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور بے تہاشہ خون بہہ رہا تھا۔ 

مجاہد حسین زیدی نے مزید کہا کہ دہشتگرد ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ اپنا ارمان لئے ہی دفن ہو جائیں گے۔ ملت تشیع کیلئے ایسے سانحات کوئی نئی بات نہیں، ہم صدیوں سے خون دیتے آرہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ لیکن اپنے مشن سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہید قائد کی قتل گاہ میں میرا خون بہنا شائد میری بخشش کا باعث بن جائے۔ انشاء اللہ جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر پرچم عباس (ع) تھاموں گا۔ سید مجاہد حسین زیدی کی بھاوج سیدہ صابرہ سلطانہ نے کہا کہ ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے توسط سے میں دہشتگردوں کو پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ سامنے آئیں، بلوں میں گھس کر وار کرنے والے گیدڑ ہوتے ہیں، اگر یہ گیدڑ اپنے آپ کو مرد کہتے ہیں تو اپنے بلوں سے نکل کر سامنے آئیں پھر ہمارے جوان تو کیا اس ملت کی خواتین ہی ان بزدل دہشتگردوں کو سبق سکھانے کیلئے کافی ہیں۔ 

سانحہ نماز جمعہ میں ایک 18 سالہ نوجوان محمد حسن بھی زخمی ہے، جس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے، حسن کو اسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا، تاہم پھر اچانک اس کی طبعیت بگڑ گئی۔ محمد حسن کا ایک بھائی اس دھماکہ میں شہید ہوگیا ہے، حسن نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ کے وقت وہ مسجد کے ہال میں موجود تھا، اس کے بعض رشتہ دار اور دوست مسجد پہنچ چکے تھے جبکہ دیگر ابھی راستہ میں تھے کہ زود دار دھماکہ سے پوری مسجد اور مدرسہ لرز گیا۔ محمد حسن نے کہا کہ میرا بھائی اس دھماکہ میں شہید ہوگیا ہے لیکن ہمیں اپنے بھائی کی اس شہادت پر فخر ہے۔ دہشتگرد بزدل اور ہم سے خوفزدہ ہیں، محمد حسن کے دوسرے بھائی علی احمد نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے ہمارے گھرانے کو یہ سعادت بخشی ہے کہ ہمارے گھر سے ایک جوان شہید کا جنازہ اٹھا ہے جبکہ ایک زخمی نمازی ہمارے گھر میں ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ خدا نے اس عظیم مقام کیلئے ہمارے گھر کا انتخاب کیا۔ ان دھماکوں سے نہ ہماری مساجد ویران ہوں گی اور نہ ہی جلوس عزاء۔

سانحہ میں زخمی ہونے والے تمام افراد اپنے گھروں کو منقل ہوچکے ہیں، 19 شہداء نمازیوں نے اپنے پاک لہو سے بیداری اور حوصلے کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ جس کا واضح ثبوت دھماکہ کے اگلے ہی جمعہ کو جامعہ شہید میں ادا کی جانے والی نماز جمعہ میں پشاور کے عوام کی بڑی تعداد میں شرکت اور بعدازاں تاریخی ریلی ہے۔ اگر کہا جائے کہ دھماکہ نے پشاور میں ملت تشیع کو مزید بیدار اور دشمن اسلام کے حوصلوں کو پست کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پارا چنار سے کوئٹہ اور گلگت سے کراچی تک تشیع کا بہنے والا خون بلاشبہ بیداری کا سبب بن رہا ہے، لیکن دہشتگردی کے اس مسئلہ پر قابو پانے کیلئے حکومتوں سے کسی قسم کی توقعات رکھنا بے سود ہے۔ مظلومین بالخصوص ملت تشیع کی نمائندہ جماعتوں کو دہشتگردی کیخلاف تمام مذہبی اور سیاسی قوتوں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کو یکجا کرنا ہوگا۔ اتحاد و وحدت انتہائی ضروری ہے، اور پاکستان میں دہشتگردی سے خوفزدہ طبقات کو حوصلہ دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 280460
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ
ہماری پیشکش