0
Thursday 11 Jul 2013 16:59

ملی مجلس شرعی نے امن وبھائی چارے کیلئے 18 نکاتی اعلامیہ جاری کر دیا

ملی مجلس شرعی نے امن وبھائی چارے کیلئے 18 نکاتی اعلامیہ جاری کر دیا
اسلام ٹائمز۔ ملی مجلس شرعی کے اجلاس میں اہم فیصلے تمام مسالک اور جماعتوں میں قربت اور رواداری کو فروغ دینے کیلئے   18 نکاتی مشترکہ اعلامیہ کا اعلان، مشترکات کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آنے، اختلافات کو برداشت کرنے اور ان سے صَرف نظر کرنے کی عادت کو ملکی سلامتی امت کے اتحادے وسیع تر مفاد کیلئے اختیار کرنا ہو گا، ملک میں جاری فرقہ واریت کی نام نہاد لہر اور دہشت گردی کو روکنے کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی اعلان، پاکستان میں نفاذ شریعت کیلئے تمام دینی سیاسی کواکٹھا کرنے اور اسی پلیٹ فارم کو انتخابی سیاست کیلئے بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ملکی مجلس شرعی کا اجلاس مرکزی صدر مفتی محمد خان قادری کی صدارت میں منصورہ میں ہوا۔اجلاس میں مولانا مفتی محمد خان قادری(مہتمم جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹاؤن لاہور) مولانا عبدالرؤف فاروقی (جمعیت علماء اسلام(س)مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی (جامعہ اہلحدیث، لاہور)مولانا عبدالمالک (صدر رابطہ المدارس و جامعہ مرکز علوم اسلامیہ ، منصورہ) علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (ناظم ادارہ منہاج الحسین لاہور) مولانا مرزا ایوب بیگ (ناظم اطلاعات، تنظیم اسلامی پاکستان) مولانا حافظ محمد نعمان حامد (جامعۃ الخیر، لاہور) مولانا سید عبدالوحیدشاہ (جماعۃ الدعوۃ پاکستان)مولانا حافظ عبدالوھاب روپڑی (جماعت اہلحدیث پاکستان)مولانا مہدی حسن (جامعہ المنتظر ماڈل ٹاؤن، لاہور) مولانا ایس ایم عبداللہ جان(مدیر اقراء تہذیب الاسلام، لاہور)مولانا نصرت علی شہانی (وفاق المدارس الشیعہ، لاہور)مولانا محمد توقیر عباس(جامعہ العروۃ الوثقی لاہور) مولانا ڈاکٹر محمد امین (صفاء اسلامک سنٹر، لاہور)شریک ہوئے۔

مشترکہ 18 نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا کہ دینی جرائد اور مجالس میں ایسی جذباتی تقریروں، تحریروں، مناظروں اور مباحثوں سے اجتناب کیا جائے جن کا مقصد ایک مسلک کی فتح اور دوسرے مسلک کی تغلیط ہو،مسلک و مشرب کو دین نہ سمجھا جائے اور نہ مسلکی اختلافات کو حق و باطل کی جنگ قرار دیاجائے، بین المسالک اختلافات کی وجہ سے کسی مسلک کی تکفیر نہ کی جائے اور نہ کسی پر ہاتھ اٹھانا جائز قرار دیاجائے نیز تکفیر کرنے والی اور دل آزاری کا سبب بننے والی تحریریں کتابوں سے نکال دی جائیں،علماء کرام اور مسالک کے درمیان اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے اور اسے عوام کی سطح تک نہ لے جایا جائے۔

دینی حلقے اور عامۃ الناس،واعظین اور ذاکرین کی بجائے ان ثقہ و سنجیدہ علماء کرام کو اہمیت دیں جو رسوخ فی العلم اور تقویٰ رکھتے ہوں اور رائے کے اظہار میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوں چونکہ مسالک میں مشترکات کی کثرت ہے اور اختلافات کم اور معمولی ہیں اور عموماً فروعی، اجتہادی اور ترجیحی نوعیت کے ہیں اس لیے مشترکات کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے اور اختلافات کو برداشت کرنے اور ان سے صَرف نظر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے،جمعہ و عیدین کے خطبات اور دیگر دروس وغیرہ میں فرقہ وارانہ موضوعات نہ چھیڑے جائیں اور بین المسالک اختلافات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ خطبات اصلاحی نوعیت کے ہوں۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ مساجد کو بلاتخصیص عامۃ الناس کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے استعمال کیاجائے خصوصاًطلبہ اور نوجوانوں کو مسجد سے جوڑا جائے اور علاقہ کے مستحقین(یتیم، مسکین، بیوہ، معذور افراد وغیرہ) کی بلاتقریق مالی مدد کیلئے کمیٹیاں بنائی جائیں۔اگرکوئی مسجد کسی مسلک کی تحویل میں ہوتو کسی دوسرے مسلک والے کو اس پر قبضہ کی کوشش کرنے اور فرقہ واریت و فساد بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔دینی مدارس اصلاً ’’دین‘‘ کی تعلیم کیلئے قائم کیے گئے ہیں نہ کہ کسی مسلک کی تعلیم و تغلیب کیلئے لہٰذا مدارس کو فرقہ واریت کی نرسریاں بنانے کی بجائے دینی تعلیم کے مراکز بنایا جائے، مشترکات کو ابھارا جائے، اختلافات کو سمیٹا جائے اورمسالک کے درمیان تقارب اور رواداری کو شامل نصاب کیا جائے۔

دوران تدریس علماء کرام، اساتذہ اور شیوخ یہ رویہ ترک کردیں کہ انہوں نے اپنے مسلک کو واحد حق ثابت کرنا اور دوسرے مسالک کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کی تغلیط اور نفی کرناہے،اس خود ساختہ پابندی کو ختم کردیاجائے کہ ہر مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کا مسلک لازماً ایک ہی ہو،دینی مدارس کو صرف متخصص علماء تیار کرنے کیلئے استعمال نہ کیاجائے بلکہ عوام خصوصاً جدید سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے(روزانہ بعد عصر اور گرمیوں کی چھٹیوں میں) استعمال کیاجائے۔دینی تعلیم کے نصاب پر اس طرح نظر ثانی کی جائے کہ طلبہ فراغت کے بعد عصر حاضر کے مسائل اسلامی تناظر میں حل کرنے کے قابل ہو سکیں اور مغربی فکر وتہذیب خصوصاً جدید معاشی ، سیاسی، قانونی اور تعلیمی مسائل سے واقفیت اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے اخلاقی بگاڑ، فساد اور بے دینی کی وجہ سے، جس کا بنیادی سبب دین سے دوری اور مغرب پرستی ہے، علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ اپنے موجودہ کاموں کے علاوہ دعوت و اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام کو بنیادی اہمیت دیں اور اس پر اپنی توانائیاں صرف کریں خصوصاً جدید تعلیم اور میڈیا کی اصلاح پر توجہ دیں۔ ایک اہم شعبہ جو علماء کرام کی توجہ کا محتاج ہے وہ خدمت خلق کا ہے تاکہ مسلمان عامۃ الناس کے دکھ درد کم ہوسکیں اور علماء کرام کی سیادت و قیادت پر ان کا اعتقاد مزید پختہ ہو اور ان کا یہ وقار اور مقام نصرت دین میں ممد و معاون ثابت ہو۔

دینی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے کی بجائے پاکستان میں نفاذ شریعت کے ایک متفقہ پروگرام پر جمع ہوکر ایک مضبوط سیاسی جماعت بن جائیں تاکہ ان کا وزن اور اہمیت بھی ہو اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں۔انتخابات میں نشستیں جیتنے کیلئے دینی سیاسی جماعتوں کی آپس میں کشمکش اور محاذ آرائی ناپسندیدہ ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔اس کے علاوہ ملی مجلس شرعی کے اعلامیہ کی مولانا زاہدالراشدی (شریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ)مولانا حافظ فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ لاہور)مولانا خلیل الرحمن قادری(جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹاؤن لاہور) مولانا احمد علی قصوری (مرکز اہل سنت لاہور)مولانا راغب نعیمی (جامعہ نعیمیہ، لاہور)نے بھی حمایت کی۔
خبر کا کوڈ : 282035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش