0
Thursday 11 Jul 2013 17:54

نئی پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے فوج حق میں نہیں

نئی پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے فوج حق میں نہیں
اسلام ٹائمز۔ گذشتہ سال اکتوبر میں وادی سوات اس وقت پھر عالمی سطح پر خبروں کا موضوع بنی رہی جب مسلح افراد نے ایک طالبہ ملالہ یوسف زئی کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مئی میں منتخب ہونے والی سویلین پاکستانی قیادت شدت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے، مختلف رائٹرز کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ تشدد سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن طاقتور پاکستانی فوج جو کئی سال سے شدت پسندوں کا تعاقب کر رہی ہے شدت پسندوں سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی جو ہزاروں فوجیوں کو جاںبحق کر چکے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے حریف عمران خان دونوں اپنی انتخابی مہم کے دوران طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرتے رہے ہیں۔ اب نوازشریف وزیراعظم بن چکے ہیں جبکہ خیبر پی کے میں عمران خان کی جماعت کامیاب رہی ہے، جہاں وادی سوات واقع ہے۔ خیبر پی کے کے وزیر اطلاعات نے رائٹرز کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے امن مذاکرات کی تیاری کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کا ایک اجلاس بلایا ہے۔ فاٹا کی صورتحال کے ایک ماہر سیف اللہ خان کا کہنا ہے کہ فوج کو یقین ہے کہ اس نے طالبان کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے اور وہ شمالی وزیرستان جیسے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں پر کاری ضرب لگانے والی ہے جہاں طالبان اور دیگر ملکوں کے شدت پسند جمع ہیں۔
خبر کا کوڈ : 282052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش