0
Wednesday 28 Aug 2013 23:40

قیام امن کیلئے تمام طبقات میں مکالمہ کی اشد ضرورت ہے، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز

قیام امن کیلئے تمام طبقات میں مکالمہ کی اشد ضرورت ہے، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز
اسلام ٹائمز۔ علمی اور فکری مباحث کا فقدان، معاشرے میں مجموعی طور پر عدم برداشت کا رویہ، ریاست کا مذہب کو استعمال کرنا، متشدد گروہوں کی موجودگی، بیرونی ممالک کی مداخلت اور کمزور سماجی نظام ملک میں امن، رواداری اور ہم آہنگی کے قیام میں اہم رکاوٹیں ہیں، ریاست اور معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے راستے اور ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے جن سے اہم ملکی مسائل پر اتفاق رائے ممکن ہو سکے، معاشرے کے تمام طبقات کے مابین مکالمہ، روابط اور ایک دوسرے کی بات کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ اور عدم تشدد کے فلسفے کو اپنانے سے ہی اس ملک میں پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔

ان خیالات کا اظہار علمائے کرام، مذہبی سکالرز، اراکین سول سوسائٹی، دانشوروں اور ماہرین نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیزکے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں ایک روزہ سیمینار بعنوان’’امن، رواداری اور ہم آہنگی کا قیام، مذہبی اور قومی ذمہ داری‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے پپس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ مکالمہ کی قوت معاشرے کے مختلف طبقات کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس کے بعد ہی معاشرے میں اہم امور پر اتفاق رائے ممکن ہے، ادارہ گزشتہ تین سال سے معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔

ملک میں جاری بدامنی کی لہر کے مذہبی اور سماجی و ثقافتی تناظر پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا رجحان اس وقت آیا جب ریاست نے مذہب کا استعمال کرنا شروع کیا اورعام آدمی کی مذہب سے وابستگی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ مذہبی سکالر خورشید ندیم نے کہا کہ اس وقت ملک میں بین المذاہب، بین المسالک ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ مذہبی اور لبرل طبقات کے درمیان بھی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سکالر اور تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا دونوں طرف کے متشدد طبقات دیگر معاشرے پر حاوی ہیں، ہمیں مکالمہ کے فروغ کے لئے ایسے مسائل پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے جن پر اتفاق رائے ممکن ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان قربتیں بڑھ سکتی ہیں۔

ڈاکٹر راغب نعیمی، پرنسپل جامعہ نعیمیہ نے کہا مغربی ثقافت کے حاوی ہونے کی وجہ سے ہمارا رشتہ اپنی مٹی سے کمزور ہوتا جا رہا ہے، حکومتی سرپرستی میں متشدد عناصر کا پروان چڑھنا بدامنی کا اہم سبب ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ باری، رہنما سول سوسائٹی نے کہا کہ ہمارا سماجی اور سیاسی نظام بھی تشدد کے نظریات کو پروان چڑھانے کا سبب ہے، ریاست اور معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو عدم برداشت کے رویوں کو فروغ دیتے ہیں۔ قومی ہم آہنگی اور باہمی مکالمہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر گفتگو کرتے ہوئے ممتاز ادیب اور مصنف اشفاق سلیم مرزا نے کہا کہ ’’ معاشی ناانصافی اور معیشت کی عدم ترقی ملک میں ہم آہنگی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہیں، اس لئے جب ہم ملک میں مساویانہ بنیادوں پر معاشی ترقی لائیں گے تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر سید محمد نجفی، پرنسپل جامعہ مدینۃ العلم نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک متشدد نظریات اور گروہوں سے برات کا اظہار نہیں کیا جاتا اور ہمارا عدالتی نظام انہیں سزائیں نہیں دیتا تب تک قتل وغارت کو روکنا ناممکن ہے۔ مفتی محمد زاہد پرنسپل جامعہ امدادیہ نے کہا کہ پرتشدد نظریات کے مواد کی عام دستیابی اور اس کے مقابلہ میں معتدل مواد کی عدم دستیابی بھی اہم وجہ ہے جس کے لئے فکری اور علمی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پرامن معاشرے کے قیام کے لئے لائحہ عمل متعین کرنے کے سوال پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی پرنسپل الشریعہ اکیڈمی نے واضح کیا کہ اس وقت ہمیں سیاسی اور مذہبی دونوں محاذوں پر عدم برداشت کے رویوں کا سامنا ہے جس کے لئے ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس سے شدت پسندی کو کم کرنے میں مدد ملے۔

سابق وزیر قانون وماہر بین الاقوامی قانون احمر بلال صوفی نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اس قانون پر عمل پیرا ہونا ہے جو اس معاشرے میں نافذالعمل ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عالمی معاہدات اور قوانین کی پیروی بھی کرنی ہے۔ سماجی کارکن انیق ظفر کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پہلے پاکستانی بننا ہو گا اور ہمیں اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ ہم اس ملک کو کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر فرید پراچہ راہنما جماعت اسلامی نے کہا کہ علماء، دینی سیاسی جماعتیں، مدارس اور مسجد و منبر حقیقی اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور فلسفہ ہی انسان کی فلاح و بہبود اور امن وامان کا قیام ممکن ہے۔ ڈاکٹر طاہر محمود پرنسپل جامعہ سلفیہ نے عدل و انصاف کی فراہمی، مشاہیر دین کا احترام، تعصبات کا خاتمہ اور مشترکہ مقاصد و اہداف کی تکمیل کیلئے ملی یکجہتی کو پرامن معاشرے کے قیام کے لئے اہم قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 296529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش