0
Thursday 29 Aug 2013 19:12

وزیرستان، مزید 2 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

وزیرستان، مزید 2 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق
اسلام ٹائمز۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر الیاس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس سال پولیو کے کُل 25 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے ملک کے قبائلی علاقوں میں پندرہ، خیبر پختونخوا میں پانچ، تین سندھ (جس میں 2 کراچی) اور 2 کیسز پنجاب میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے پولیو کے قطرے پلانے پر عائد پابندی کی وجہ سے فاٹا کے 2,60,000 بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکتے جس کی وجہ سے وہ وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں پولیوکے خاتمے کے لئے کام کرنے والے فاٹا پولیو سیل کے ایک اہلکار کے مطابق چند دن پہلے شمالی وزیرستان میں سولہ بچوں کے نمونے معائنے کے لئے اسلام آباد میں قومی صحت کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ بھجوائے گئے جہاں پر ان میں سے حسوخیل تحصیل میرعلی کی 2 سالہ مریم اور رزمک کے 11 ماہ کے محمد میں پولیوکی تصدیق ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 2 بچے ان 3 بچوں کے علاوہ ہیں جن میں چند روز قبل پولیو کی تصدیق ہوگئی تھی اور اسی طرح جن بچوں کے نمونے این آئی ایچ کے پاس موجود ہیں ان میں بھی اس مرض کے جراثیم کے آثار ہیں۔

اس اہلکار کا کہنا تھا کہ ان بچوں کے علاوہ 42 اور بچے بھی ہیں جن کے نمونے جلد ہی این آئی ایچ بھیجے جائیں گے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہیں بھی پولیو ہے۔ میرانشاہ میں ایک قبائلی رہنما نے میڈیا کو بتایا کہ علاقے میں موجود محکمۂ صحت سے وابستہ لوگ اور متاثرہ بچوں کے رشتے دار اس صورتحال سے پریشان ہیں اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے مقامی طالبان کو اس بات پر راضی کر لیں کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے پر عائد پابندی کو ختم کر دیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان پرگرینڈ جرگے کا اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال جون میں بعض شدت پسند تنظیموں کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور باڑہ میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم ملتوی کردی گئی تھی۔
صوبہ پنجاب کے وسطی شہر گوجرانوالہ میں پولیو کی ٹیم کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے الزام میں ایک شخص کوگرفتار کیا گیا ہے۔ گھرجاکھ پولیس سٹیشن کے انچارج محمد عارف کے مطابق پولیو ٹیم کے انچارج شاہد زمان بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی نگرانی کر رہے تھے کہ اس عرصے کے دوران وہ علاقے کے رہائشی عمران سہیل کے گھر گئے اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں تصدیق کرنی چاہی۔ پولیس نے بقول ملزم عمران سہیل نے شاہد زمان اور اُن کی ٹیم کے دیگر ارکان کے ساتھ ہاتھاپائی کرنے کے علاوہ سنگین نتائج کی دھمکی دی جس پر پولیس نے مقدمہ درج کر کے اُنہیں گرفتار کر لیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں محکمۂ صحت کے ایک اعلیٰ اہلکار ڈاکٹر خیال میر جان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے پولیو کے قطرے پلانے پر عائد پابندی کی وجہ سے فاٹا کے ہزاروں بچوں کو پولیو کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ ہمارے پاس روز پولیو سے متاثرہ بچے آ رہے ہیں، ہمیں انسدادِ پولیو مہم شروع کرنی ہو گی ورنہ یہ مرض وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور دوسرے اضلاع تک پھیل سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو ملک اور خصوصاً قبائلی علاقہ جات میں پولیو کے خاتمے کےحوالے سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پولیو ٹیموں پر کیے جانے والے حملے ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
پولیو ٹیموں پر حملوں پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے ان حملوں کو ’ظالمانہ، احساس سے عاری اور ناقابل معافی‘ قرار دیا تھا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پولیو مہم کی مخالفت میں اضافے کی اہم وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جعلی ویکسینیشن مہم بھی ہے جنہوں نے سنہ 2011 میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے ایبٹ آباد میں جعلی مہم چلائی جس کے بعد پولیو کےحوا لے سے لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور طالبان نے پولیو ورکرز اور ٹیموں پر حملے شروع کر دیے۔
رواں سال جون میں اسلام آباد میں بچوں کی صحت کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں علماء و مشائخ نے ملک میں پولیو ورکروں پر ہونے والے حملوں کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔
خبر کا کوڈ : 296787
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش