0
Saturday 31 Aug 2013 12:36
شام کیخلاف محدود فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں

کیمیائی حملوں سے اسرائیل اور اردن جیسے اتحادیوں کو خطرہ ہے، باراک اوبامہ

کیمیائی حملوں سے اسرائیل اور اردن جیسے اتحادیوں کو خطرہ ہے، باراک اوبامہ
اسلام ٹائمز۔ فرانس کے صدر نے 4 ستمبر بدھ تک شام پر حملے کی ڈیڈ لائن دیدی، جبکہ برطانوی پارلیمنٹ میں شکست کے بعد ڈیوڈ کیمرون بھی حملے میں شرکت سے انکاری ہوگئے۔ ادھر جرمنی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بھی شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ ناقابل معافی ہے اور شام کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرکے بچوں اور خواتین کو قتل کرنا کسی صورت قبول نہیں۔ شام کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ کیمیائی حملے دنیا کے لئے چیلنج ہیں، اس سے اسرائیل اور اردن جیسے اتحادیوں کو خطرہ ہے۔ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے امریکی قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام بحران پر پالیسی بیان میں کہا ہے کہ شام میں عراق والا تجربہ نہیں دہرائیں۔ 21 اگست کا کیمیائی حملہ شامی حکومت نے کیا تھا، جس میں 1429 شہری ہلاک ہوئے۔ 426 بچے بھی جان سے گئے تھے۔ اقوام متحدہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے۔ صدر اوباما شامی بحران پر امریکی عوام کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ 

ڈنمارک کے دورے پر موجودہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسین نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ شام کی حکومت شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے حملے میں ملوث ہے۔ اس پر سخت بین الاقوامی ردعمل ہونا چاہئے لیکن نیٹو فورسز شام پر حملے کا حصہ نہیں بنیں گی اور نہ ہی ہمارا کوئی کردار ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ حملے کے بغیر بھی حل ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ شام کی صورتحال پر فرانس بشار الاسد حکومت کے خلاف منظم اور جامع کارروائی چاہتا ہے، تاہم کوئی بھی کارروائی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوگی۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے مبینہ کیمیائی حملے کے نمونوں پر کام مکمل کر لیا۔ اقوام متحدہ ترجمان کے مطابق ماہرین مبینہ کیمیائی حملے سے متعلق شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں، جبکہ شام کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے جانبدارانہ رپورٹ آئی تو اس کو مسترد کر دیا جائے گا۔ 

بی بی سی کے مطابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما کے جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج حملے کے لئے تیار ہیں۔ علاوہ ازیں بانکی مون نے گذشتہ روز سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی اور رپورٹ آنے تک حملے نہ کرنے کا کہا۔ ادھر اوباما نے بھی شام کے خلاف ممکنہ کاروائی کے حوالے سے قومی سلامتی کے مشیروں سے ملاقات کر کے انہیں آئندہ کے پلان سے آگاہ کیا۔ کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا نے بھی فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ ادھر شامی حکومت نے ممکنہ حملے کے پیش نظر اپنے دفاتر اور سکولوں کو جامعات میں منتقل کر دیا۔ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی جنگ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ 

علاوہ ازیں چین کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی ہم منصب سے ملاقات کرکے صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ادھر پولینڈ کا کہنا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا انبار لگانے کا ذمہ دار روس ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ شام میں برطانوی مداخلت مسترد ہونے کے باوجود وہاں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کا بھرپور جواب دینا ضروری ہے۔ دریں اثناء امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ یہ فوجی کارروائی شام میں اقتدار کی تبدیلی کے لئے نہیں ہوگی۔ ترکی کا بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شامی حکومت نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ جان کیری کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کے خلاف فوجی ایکشن لینے کے حوالے سے عالمی ناکامی سے ایران اور حزب اللہ مزید بہادر ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 297227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش