0
Monday 2 Sep 2013 10:09
وسعت اللہ خان کی بات سے بات

امریکہ بدل چکا ہے

امریکہ بدل چکا ہے
"امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔ لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔" امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہوسکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔ اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا، تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔
 
وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نے جوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔ وہ زمانہ اور تھا جب امریکہ نے ویتنام کے تیرہ فیصد جنگلات اور زرعی زمین کو بی باون طیاروں سے ایجنٹ اورنج چھڑک کر زہریلا کر ڈالا تھا۔ وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے 80 کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کرکے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلبچہ میں اپنے ہی 5000 شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔
 
شام کی بدبختی
شام میں اگر روایتی ہتھیاروں سے ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر 65 برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔ وہ واشنگٹن اور تھا جسکے بذریعہ اقوامِ متحدہ عراق کی دس برس کی مکمل اقتصادی ناکہ بندی کے سبب پانچ لاکھ سے زائد بچے مرگئے یا اپاہج ہوگئے۔ وہ بش سینیئر کوئی اور تھا جس کے دستوں نے جنوبی عراق میں یورینیم سے آلودہ آرٹلری شیل استعمال کئے۔ یوں علاقے میں طرح طرح کے سرطانوں کی ایک طویل فصل لہلہا اٹھی۔ وہ طیارے کسی اور امریکہ کے تھے جنہوں نے قندھار کی وادیِ ارغنداب کے گاؤں طارق کلاچی پر دو برس پہلے 25 ٹن بارود کچھ یوں برسایا کہ اب وہ افغانستان کے نقشے میں ہی نہیں۔ البتہ متاثرہ خاندانوں کو دس دس ہزار ڈالر بھی ملے۔
 ایک زمانہ تھا کہ بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد شرفا میں شمار ہوتے تھے۔ تبھی تو شام 1990ء کی جنگِ خلیج میں عراق مخالف امریکی اتحاد کا حصہ تھا۔ لیکن اب نہ وہ شریف شام رہا اور نہ ہی وہ سفاک امریکہ، کیونکہ اب زمانے کے تیور ہی بدل چکے ہیں۔
 
حال ہی میں مصر میں ایک ہزار سے زائد افراد بھی انہی ہتھیاروں سے قتل ہوئے۔ کسی نے کوئی اعتراض کیا؟ نہیں، کیونکہ مصر کا معاملہ کچھ اور ہے، لیکن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے 1429 معصوم شہریوں کی ہلاکت تو کوئی سفاک سے سفاک انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ مہذب دنیا؟ چہ جائیکہ مہذب دنیا کے مہذب ترین اقوام امریکہ اور فرانس وغیرہ؟ وہ تو سوائے فلسطینیوں کے دنیا کے کسی کونے میں ظلم برداشت کرنے کو تیار نہیں، بشرطیکہ امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ 

امریکہ سمیت دنیا کے 188 ممالک نے کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرے اور استعمال پر پابندی کے عالمی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ لیکن شام، اسرائیل اور مصر ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس کنونشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ مصر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے یمن میں 60ء کی دہائی میں باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے۔ 73ء کی جنگ کے دوران شام کو احتیاطاً کیمیاوی ہتھیاروں کے سمپل بھی بھجوائے اور صدام حسین کو اس شعبے میں مہارت دلانے کے لئے مغربی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کیا۔ مگر اسرائیل اور مصر کی بات کچھ اور ہے۔ شام سے بھلا ان کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ 

امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔ لہذا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔ شام کے بعد وہ اسرائیل اور مصر کو کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرانے پر مجبور کرے گی۔ ایران کے بعد سعودی اور اماراتی جوہری پروگرام پر بھی پابندیاں لگوائے گی اور کیمیاوی ہتھیاروں کے دستخطی کے طور پر امریکہ کو 29 اپریل 2012ء تک اپنی قاتل گیسوں سے جو سو فیصد چھٹکارا پانا تھا۔ اپنی کوتاہی پر عالمی برداری سے معافی بھی مانگے گا اور شام پر حملے سے پہلے پہلے اپنے بقیہ پانچ ہزار ٹن کیمیاوی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی چوک میں رکھ کر آگ لگائے گا۔ مجھے قطعاً تعجب نہیں ہوگا کہ اگلے ہفتے سے ڈالر پر جارج واشنگٹن کے بجائے گوتم بدھ کی تصویر چھپنے لگے۔
خبر کا کوڈ : 297733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش