0
Thursday 5 Sep 2013 17:12

امریکہ عربوں کی حمایت کے بغیر شام پر حملہ نہیں کرسکتا، ناصر شیرازی

امریکہ عربوں کی حمایت کے بغیر شام پر حملہ نہیں کرسکتا، ناصر شیرازی
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیاسی سیل کے سربراہ سید ناصر عباس شیرازی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطٰی ایسا علاقہ ہے جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے، تاریخی طور پر اس کی بہت اہمیت ہے، یہ تین براعظموں ایشیا افریقہ اور یورپ کو ملاتا ہے، اس لئے اس کی تجارتی اور تاریخی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، اس سب کے علاوہ اس علاقے کی مذہبی اہمیت بھی بہت ہے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب مسلمان، عیسائی اور یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطٰی پر قابض ہونے والا پوری دنیا پر قابض ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہودی تورات کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ علاقہ ان کو ملے تو وہ پوری دنیا پر حکومت کرسکتے ہیں۔ عیسائیوں کا بھی یقین ہے کہ حضرت عیسٰی (ع) بھی اسی علاقے میں آئیں گے اور مسلمانوں کے بھی دونوں بڑے سکول آف تھاٹ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام مہدی (ع) کا ظہور بھی یہیں سے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ پہاڑی چوٹی کی طرح کی اہمیت رکھتا ہے اور جو پہاڑی چوٹی پر قابض ہوگا، اس کی ہر جگہ نظر ہوگی۔

لاہور میں مقامی اخبار کے فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے ناصر شیرازی نے کہا کہ مشرق وسطٰی اسرائیل، شام، فلسطین کے علاقے ان دو بلاکس پر مشتمل ہیں، ایک بلاک استعماری قوتوں پر مشتمل جبکہ دوسرا مزاحمتی قوتوں پر مشتمل ہے۔ استعماری قوتوں کا لیڈر امریکہ ہے، یہاں پر وہ ڈائریکٹ کنٹرول نہیں کرسکتا، اس لئے عرب ممالک اس بلاک میں شامل ہیں۔ دوسرا بلاک مزاحمتی قوتوں کا ہے، ان میں حماس، حزب اللہ، شام، ایران شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے مگر اسے خطے میں اسٹریٹیجیکل ڈیپتھ حاصل نہیں، اس کے چاروں بارڈرز کیساتھ کوئی ملک اس کا حمایتی نہیں۔ استعماری قوتوں نے اسرائیل کو غیر محفوظ دیکھا، کیونکہ مصر میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد مرسی کی حکومت اسرائیل کیخلاف تھی، امریکہ نے مصر میں مرسی کی حکومت کے خاتمے کیلئے فنڈنگ کی، مرسی کی حکومت ایک جمہوری حکومت تھی اور مصر کی تاریخ میں یہ بہترین حکومت تھی، گرچہ اس میں بھی خامیاں تھیں۔ اس حکومت نے آتے ہیں غزہ کا رستہ کھول دیا جو کہ عرصہ دراز سے بند تھا۔

انہوں نے کہا کہ شام کا قصور یہ ہے کہ شام فلسطین کی مزاحمتی قوتوں کا سب سے بڑا مرکز تھا، فلسطینی مجاہدین شام میں تھے اور وہ فلسطین کی حمایت میں اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں کھڑا تھا۔ شام کا حکمران بھی اگرچہ آئیڈیل نہیں تھا مگر وہاں دیگر عرب ممالک کی طرح مخالف مذہبی گروپوں پر اتنی پابندیاں نہیں تھیں اور اس نے دیگر عرب ممالک کی طرح کمپرومائز نہیں کیا۔ اب امریکہ مصر اور شام کا بارڈر اسرائیل کیلئے محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں مزاحمتی بلاک بہت مضبوط ہوا ہے۔ ناصر شیرازی نے کہا کہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو حزب اللہ نے اسرائیل کو شکست دی، اس جنگ سے پہلے صرف ایک بارڈر پر حزب اللہ بیٹھی تھی، اب جولان پر بھی بیٹھی ہے۔ اس مزاحمتی بلاک کے پاس اگرچہ بحری بیڑا اور سیٹلائٹ نہیں ہیں، مگر بحری بیڑے اور سیٹلائیٹ کو تباہ ضرور کرسکتے ہیں، جس کا انہیں بہت دکھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عرب ممالک امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کبھی شام میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا، شام کی جنگ علاقے کے حقوق کی جنگ نہیں، کیمیائی ہتھیار دمشق میں استعمال ہوئے جہاں پر حکومت کا پوری طرح کنٹرول ہے، حکومت کو کیا ضرورت تھی کہ اپنے زیرکنٹرول علاقے میں کیمیائی حملہ کرتی، یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر آئے مگر ملا کچھ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے اور 13 سو لوگ جاں بحق ہوئے تو 13 سو لوگوں کیلئے لاکھوں لوگوں کو مارا جائے گا اور ایسا وہ امریکہ کرے گا جس کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے لاکھوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں جلا کر راکھ کر دیا تھا۔

ناصر شیرازی نے کہا کہ موجودہ حالات میں اگر امریکہ نے شام پر حملہ کیا اور جو کہ وہ کرے گا کیونکہ اب اگر امریکہ حملہ نہیں کرتا تو اس کی پریسٹیج کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا تو مزاحمتی بلاک اب امریکہ کو سبق سکھا دے گا، اس کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ یہ اس کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔ ہم ہر ظلم کی مذمت کرتے ہیں شام میں عام لوگ مر رہے ہیں، مگر پناہ گزین کیمپوں میں اس سے بھی زیادہ مسائل کا شکار ہیں، وہاں ان کی عزت نفس ختم ہو رہی ہے۔ مشرق وسطٰی ایک آگ میں جل رہا ہے، اگر امریکہ اس آگ کو بڑھائے گا تو خود بھی اس آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 298957
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش