0
Saturday 7 Sep 2013 21:02

آسٹریلیا انتخابات، حکمران جماعت کو شکست

آسٹریلیا انتخابات، حکمران جماعت کو شکست
اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم کیون رڈ نے آج ہفتے کے روز منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران اپنے کنزویٹو مد مقابل ٹونی ایبٹ کے ہاتھوں شکست تسلیم کرلی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ لیبر پارٹی کے قائد کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیں گے جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں نے انہیں پارٹی میں جاری اندرونی معاملات پر سزا دی ہے۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے تقریباً 100 منٹ بعد انہوں نے اپنی مد مقابل کو کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد دی۔ 

انہوں نے کہا کہ کچھ دیر پہلے میں نے ٹونی ایبٹ کو فون کرکے قومی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی ہے۔ چنانچہ میں انہیں یہ عہدہ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں لیبر پارٹی کی قیادت حاصل کرنے کے لئے دوبارہ مقابلہ نہیں کروں گا، میرا خیال ہے کہ آسٹریلوی عوام ایک نئے قائد کے ساتھ نئے آغاز کے مستحق ہیں۔

خیال رہے کہ انتخابی عمل میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ جہاں مشرقی آسٹریلیا میں پولنگ مقامی وقت کے مطابق چھ بجے ختم ہوئی جبکہ مغربی آسٹریلیا میں پولنگ دیر سے شروع ہونے کے باعث دو گھنٹے بعد بند ہوئی۔ جبکہ ووٹنگ کی شرح تقریبا 90 فیصد سے زیادہ رہی۔
متعدد سینئر لیبر وزراء پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرچکے ہیں۔ وزیر دفاع اسٹیفن اسمتھ نے اے بی سی ٹی وی پر تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج رات حکومت کو شکست ہو جائے گی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق تین ماہ قبل وزیرِ اعظم منتخب ہونے والے کیون رڈ اپنے حریف سے پیچھے تھے اور ان کی پارٹی کی جانب سے ایوان زیریں کی 150 میں سے 97 سیٹیں جیتنے کی امید ہے۔
نیو پول کی جانب سے کرائے گئے سروے میں کہا گیا تھا کہ حکومتی جماعت لیبر پارٹی ان انتخابات میں گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں مزید 21 سیٹیں ہار جائے گی اور اس کی مجموعی سیٹوں کی تعداد 51 ہوگی جبکہ دو سیٹیں آزاد امیدوار جیتیں گے۔ دو جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے سروے کے مطابق انتخابات میں ایبٹ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے 53 فیصد جبکہ ان کی حریف جماعت لیبر پارٹی 47 فیصد ووٹ حاصل کرے گی۔
سن 1980 اور 90 کی دہائی کے دوران لگاتار چار مرتبہ آسٹریلین وزیر اعظم منتخب ہونے والے لیبر پارٹی کے رہنما باب ہاک نے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ وہ انتخابات ہیں کہ جس میں حزب اختلاف نہیں جیتے گی بلکہ دراصل حکومت کو شکست ہوگی۔
دونوں حریفوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ بجٹ میں خسارے کو کس طرح کم کیا جائے تاہم دونوں نے کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا آنے والے سیاسی پناہ گزینوں کی آمد کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیرِ اعظم رڈ نے تین ماہ قبل جولیا گیلارڈ کی جگہ سنبھالنے کے بعد ان انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ گیلارڈ نے 2010ء میں رڈ کو ہٹا کر ان کی جگہ سنبھالی تھی جس کے بعد سے لیبر پارٹی کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا تھا۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں ایبٹ آگے نکل گئے، جنہیں روپرٹ مرڈوک کے اخبارات کی سرگرم حمایت حاصل تھی۔
اس دوران خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ الیکشن میں شکست کے بعد رڈ بطور حزب اختلاف رہنما بھی اپنی پارٹی کی ایوان زیریں میں قیادت نہیں کر سکیں گے کیونکہ انہیں اپنی نشست سے شکست کا بھی امکان ہے۔ نیوز پول کے چیف مارٹن او شناسے کے مطابق مقابلہ بہت سخت ہے اور دونوں امیدواروں کی جیت کا پچاس فیصد امکان ہے۔ تاہم اس تمام تر صورتحال کے باوجود وزیر اعظم نے اپنی فتح کا یقین ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے بہتری کی جانب تمام اقدامات کئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے لوگوں کے فیصلے پر پورا بھروسہ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملک، خاندان اور برادری کے مستقبل کے لئے کیا سب سے بہتر ہے۔
رڈ نے اپنے دور میں کافی بہتر کام انجام دیے جس میں سب سے اہم دنیا بھر میں جاری معاشی بحران کے دوران آسٹریلیا کو اس مشکل سے نکالنا تھا۔ انہوں نے ایک دستخط پالیسی بھی متعارف کرائی تھی جس کے ذریعے بچت پالیسی اپناتے ہوئے ملک کے قرضے میں نمایاں کمی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر پالیسی میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا اور کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا آنے والے سیاسی پناہ گزینوں کی آمد کو روکنے کے لئے سخت اقدامات شامل ہیں۔
اتنے بڑے ملک میں لاجسٹک مشکلات کے باوجود آسٹریلین عوام کی بھاری تعداد نے حق رائے کے استعمال میں انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے جہاں 1924 کے بعد سے اب تک ووٹر ٹرن آؤٹ کبھی بھی 90 فیصد سے کم نہیں رہا۔

خبر کا کوڈ : 299617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش