0
Monday 23 Sep 2013 23:49

پشاور میں مسیحیوں پر قیامت، مسلمان شانہ بشانہ

پشاور میں مسیحیوں پر قیامت، مسلمان شانہ بشانہ
رپورٹ: ایس اے زیدی

22 ستمبر کو پشاور کے معروف اور قدیمی آل سینٹس چرچ میں مسیحی مرد، خواتین اور بچے اپنی ہفتہ وار عبادت کی ادائیگی کے بعد واپس گھروں کو جانے کیلئے نکلنے ہی والے تھے کہ مین دروازے سے ایک خودکش حملہ آور تیزی سے اندر داخل ہوا اور خود کو ایک زور داد بم دھماکے سے اڑا دیا۔ جس کے نتیجے میں کوہاٹی کا پورا علاقہ لرز اٹھا اور چرچ کے صحن میں کچھ لمحے قبل زندہ اور ہشاش بشاش رہنے والے افراد بالخصوص خواتین اور بچے ٹکڑوں اور گوشت کے لوتھڑوں میں بدل گئے۔ اس دھماکہ کے چند لمحے بعد ہی چرچ کے عقبی دروازے سے ایک اور خودکش حملہ آور داخل ہوا اور زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کی نعشوں کی طرف آنے والے ہجوم میں پہنچ کر خود کو اڑا دیا۔ ان دو دھماکوں کے نتیجے میں اب تک  83 قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں، جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ 

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے وقت چرچ کے احاطہ میں چاول تقسیم ہو رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ہجوم تھا اور لگ بھگ 500 سے زائد لوگ اس وقت چرچ میں موجود تھے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دونوں خودکش دھماکوں میں آٹھ، آٹھ کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ عینی شاہدین کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سانحہ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے رونماء ہوا ہے۔ تین، چار پولیس اہلکار عبادت کے موقع پر موجود ہوتے تھے، تاہم وہ اندر بیٹھ کر اخبار پڑھنے اور موبائل فون پر باتیں کرنے میں مصروف ہوتے تھے۔ اگر پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی درست طریقہ سے سرانجام دیتے ہوئے اتنی قیمتی انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ خودکش حملوں کے زخمیوں اور نعشوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچایا گیا۔
 
چھٹی کا دن ہونے اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باعث اسپتال میں بستر کم پڑ گئے جبکہ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں کی شدید کمی بھی دیکھی گئی۔ ایسی صورت حال میں مشتعل افراد نے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی۔ اب تک ہونے والے تحقیقات میں کوئی خاص پیش فت نہیں ہوئی، پولیس حکام کے مطابق دونوں حملہ آور مرد اور عام کپڑے پہنے تھے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن مسعود خلیل کا کہنا ہے کہ پشاور میں گرجا گھر حملے میں ملوث دونوں افراد مرد اور عام کپڑوں میں ملبوس تھے۔ پولیس کی وردی اور برقع پوش حملہ آور ہونے سے متعلق باتیں بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کے اعضاء کے نمونے حاصل کئے جائیں گے، جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاہور بھجوایا جائے گا۔ 

اس سانحہ نے صرف مسیحی برادری کو ہی نہیں بلکہ ہر  محب وطن پاکستانی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پشاور کی فضاء سانحہ کو 18 گھنٹے سے زائد بیت جانے پر بھی سوگوار ہے، اہم بازار بند ہیں اور ہر طرف افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی قوم حقیقت میں جسد واحد کی مانند ہے، یہاں کوئی طبقاتی، نسلی یا مسلکی تفریق نہیں۔ واضح رہے کہ جہاں آل سینٹس چرچ قائم ہے، اس کے اردگرد شیعہ آبادی زیادہ ہے، اور یہاں مختلف کالونیوں میں مسیحی آباد ہیں، ایام عزاء یا ماتمی جلوسوں کے موقع پر ہر مرتبہ مسیحی برادری نے اپنے اہل تشیع بھائیوں کیساتھ تعاون کیا، اور چند سال قبل 25 دسمبر عشرہ محرم کے درمیان آنے پر مسیحی برادری نے احتراماً اپنی تقریبات محدود رکھیں۔ اس کے علاوہ جلوسوں کے مجالس کی انتظامات میں بھی ہمیشہ سے مسیحی برادری کا اہل تشیع کیساتھ تعاون رہا ہے۔ 

ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ مسیحیوں پر قیامت ٹوٹے اور ان کے ہمسائے اہل تشیع ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔؟ جوں ہی دھماکے ہوئے سب سے پہلے امداد کو اہل تشیع پہنچے۔ زخمیوں کو ایمبولینسوں میں ڈالا اور جاں بحق بہن، بھائیوں کی میتیں اٹھائیں، غم سے نڈھال مسیحی اپنے مسلمان بھائیوں کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتے نظر آئے۔ خون کے عطیات میں بھی مسلمان اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں بچانے میں پیش پیش رہے۔ زخمیوں کو اسپتال پہنچانے، میتوں کو گھر لانے اور حتیٰ کہ قبریں کھودنے میں بھی ان مسلمانوں کا ساتھ مسیحیوں کیساتھ رہا۔ ایک مسیحی نوجوان اسپتال میں دھاڑیں مار کر رو رہا تھا تو اس وقت اس نوجوان کے گرد مسلمان دوستوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوچکی تھی جو چپکے چپکے اپنی جیبوں میں موجود رقوم میں سے کچھ گن کر جمع کر رہے تھے اور پھر منٹوں میں جمع ہونے والے یہ ہزاروں روپے انہوں نے لواحقین کو تھمائے اور خود بیلچے اٹھا کر وزیر باغ کے قریب واقع کرسچین قبرستان میں پہنچ گئے۔

یہ ساری مقامی مسلم آبادی دھماکے ہونے سے لے کر رات گئے تدفین تک لواحقین کے ہمراہ موجود رہی اور میتیں دفنا کر ہی اپنے گھروں کو لوٹی۔ یقیناً یہ سانحہ بڑا تھا، جس نے اس قسم کے حادثوں کے عادی پاکستان کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا لیکن اس ساری تصویر کے ایک کونے میں ایک رنگ اور بھی تھا۔ جو یہ ظاہر کر رہا تھا کہ دہشت کا منصوبہ بنانا اور اس کو عملی جامہ پہنانا تو شاید آسان ہے لیکن اس عمل کے بدنما رنگوں پر حاوی ایک رنگ اور بھی ہے، جو انسانیت کا رنگ ہے۔ جو پاکستانی قوم  میں رچا بسا ہوا ہے۔ جس نے بھی دہشتگردی کا یہ منصوبہ بنایا تھا وہ ان نعشوں کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے پشاور کے کرسچین قبرستان میں گرنے والے مسلمان جوانوں کا پسینہ دیکھ کر اپنی ناکامی پر نوحہ کناں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 304664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش