0
Tuesday 8 Oct 2013 20:16
زلزلہ شہداء کی 8ویں برسی

سانحہ 8 اکتوبر 2005ء کے متاثرین کے زخم آج بھی تازہ

سانحہ 8 اکتوبر 2005ء کے متاثرین کے زخم آج بھی تازہ
رپورٹ: ایس اے زیدی

8 اکتوبر 2005ء کی صبح سرزمین پاکستان پر ایک قیامت بن کر ٹوٹی۔ 9 بجے کے قریب ملک کے بالائی حصوں میں اس قدر شدید زلزلہ آیا کہ جس نے 90 ہزار سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ جبکہ لاکھوں لوگ بےگھر اور ہزاروں عمر بھر کیلئے اپاہج ہو گئے۔ اس زلزلہ کی شدت لگ بھگ پورے ملک میں محسوس کی گئی، تاہم ایبٹ آباد، مانسہرہ اور آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں شدید تباہی ہوئی۔ 2005ء کے اس تباہ کن زلزلے کو آج 8 سال پورے ہو گئے ہیں، اس بھیانک زلزلے کی تلخ اور خوفناک یادیں آج بھی ان متاثرین کے اذہان میں جوں کی توں ہیں۔ متاثرین زلزلہ اب بھی اپنے گھروں کی تعمیر کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 8 اکتوبر کی تلخ یادیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ 8 سال گزرنے کے باوجود مانسہر، بالاکوٹ، ایبٹ آباد، شانگلہ، مظفر آباد، باغ اور راولا کوٹ میں تعمیرنو کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ اب بھی ایسے متاثرین بڑی تعداد میں موجود ہیں جو موسموں کی سختیوں کے باوجود کیمپوں اور ٹینٹوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 

حکومت کی جانب سے تعمیر نو کا وعدہ 8 سال بعد بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس زلزلہ سے سب سے زیادہ متاثر بالاکوٹ شہر اور آزاد کشمیر کا ضلع مظفر آباد ہوئے۔ زلزلے سے بالاکوٹ شہر کا 90 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا اور 5 ہزار سے زائد خاندان بےگھر ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تو غلط نہ ہوگا۔ زلزلہ کے چند دن بعد راقم کو جب انتہائی مشکلات کے باوجود بالاکوٹ جانے کا موقع ملا تو وہ حالات ناقابل بیان تھے۔ ایک دن میں درجنوں مرتبہ آفٹر شاکس تواتر کیساتھ آ رہے تھے۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی تھی۔ امدادی اداروں اور شہریوں نے ملبوں سے برآمد ہونے والی نعشوں کو مین سڑک کے دونوں طرف رکھا ہوا تھا۔ اور نعشوں کی یہ قطار کئی کلو میڑ طویل ہو گئی تھی۔ اس سانحہ کے بعد حکومت نے فالٹ لائنز کی موجودگی کے باعث بالاکوٹ شہر کو ریڈ زون قرار دیکر یہاں تعمیرات پر پابندی عائد کردی اور بکریال کے مقام پر گیارہ ہزار 436 کنال اراضی پر نیا شہر بسانے کا اعلان کیا تھا۔
 
12 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا مگر وقت گزرتا گیا اور آج 8 سال بعد بھی شہر نہیں بسایا گیا۔ تاخیر کے باعث منصوبہ کے لئے مختص رقم دیگر منصوبوں پر خرچ ہو گئی۔ حکومت نے نیو بالاکوٹ سٹی کو صرف ایک بورڈ لگا کر ’’سٹی آف ہوپ‘‘ کا نام تو دے دیا لیکن تاحال متاثرین کی کوئی امید پوری نہ ہو سکی۔ ریڈ زون بالاکوٹ کے ہزاروں متاثرین کے لئے بکریال کے مقام پر زیرتعمیر امیدوں کا یہ شہر زلزلے کے آٹھ سال بعد بھی ایک بے تعبیر خواب ہی ہے۔ ایک طرف حکومت نے بالا کوٹ کو ریڈ زون قرار دیکر پختہ تعمیرات پہ پابندی عائد کر دی ہے تو دوسری طرف نیو بالا کوٹ سٹی کی تعمیر آٹھ سال گذرنے کے باوجود التواء کا شکار ہے۔ یہ حکومتی حکمت بھی متاثرین کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ لہذا انہیں وہاں پر نہ تعمیر کی اجازت ہے اور نہ ہی یہاں حکومت کی جانب سے تعمیر نو کا وعدہ پورا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں افراد اب بھی مہاجرین کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ کئی خاندانوں کو چھت بھی میسر نہیں۔

ادھر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی حالات مختلف نہیں۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہر کے اندر 234 مختلف ترقیاتی منصوبے ترتیب دیئے گئے لیکن ان میں سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 5 مکمل ہو سکے۔ 42 پر کام جاری ہے جبکہ 187 پر ابھی کام شروع ہونا ہے۔ مظفر آباد میں آج بھی کمسن طالبات کھلے آسمان اور عارضی خیموں میں تعلیم حاصل کرتی نظر آتی ہیں۔ اس ہولناک زلزلہ کی وجہ سے مظفر آباد میں مکانات، سکول، کالج، یونیورسٹی، دفاتر، ہوٹل، اسپتال، مارکیٹیں اور پلازے، ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔ یہاں پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ پانچ لاکھ افراد گھروں سے سڑکوں پر آ گئے۔ آزاد کشمیر میں 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے والے اٹھائیس سو تعلیمی اداروں میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد سکول کی تعمیر 8 سال گزر جانے کے باجود آج تک مکمل نہیں ہو سکے۔

یقیناً آج ان متاثرین کے دل اپنے پیاروں کی یاد میں بوجھل اور غمگین ہوں گے۔ کیونکہ اسی روز تباہ کن زلزلے نے انہیں اپنے گھروں سے کھلے آسمان تلے اور بعدازاں خیموں تک لا پہنچایا تھا اور ہزاروں خاندانوں سے ان کے پیاروں کو چھین لیا۔ کھلے آسمان تلے سے خیمے تک پہنچنے پر ایک متاثرہ شخص خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھتا تھا کہ کپڑے کی ہی سہی چھت تو میسر آگئی۔ تاہم اب شاید وہ آسودگی وہ سکون محلات میں بھی نہ ملے جو اس وقت ایک امدادی خیمے تلے ملتا تھا۔ وقت دبے پائوں گزر گیا 8 برس بیت گئے۔ لیکن آج بھی متاثرین کے زخم تازہ دکھائی دیتے ہیں، وہ حکومتی بےحسی پر آج بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ وہ احتجاج جو باطنی ہے۔ 8 سال سے ’’خاموش‘‘ فریاد و احتجاج کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ نہ حکمرانوں کی روش بدلتی ہے نہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے دل موم ہوتے ہیں۔ 

اگر کچھ بدلتا ہے تو فقط یہ کہ جو ٹولہ اقتدار میں ہوتا ہے اس کے حامی احتجاجی کیمپوں سے غائب ہوجاتے ہیں اور جو لوگ حکومتی ذمہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں انہیں متاثرہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کا غم کھانے لگتا ہے۔ 8 سال گزر جانے کے باوجود ان متاثرین کی مشکلات کا برقرار رہنا ہر محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکر ہے۔ ہر موقع پر جوش و خروش سے اپنے ہم وطنوں کی مدد کا جذبہ رکھنے والی پاکستانی قوم کو ان متاثرین کے شب و روز پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ان کے اپنوں کے بچھڑنے کے زخم کا تو شائد کوئی مرہم نہ ہو سکے تاہم ان کے مسائل اور مشکلات کو کسی حد تک کم کرنا یقیناً ان کو نئی زندگی کی امید دلا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسے سانحات کے متاثرین کو صرف سالانہ تقریبات میں ہی یاد کیا جائے۔ حکمرانوں کے رویوں کو دیکھتے ہوئے ان سے کسی قسم کا مطالبہ یا اپیل بےجا ہے۔ غیور پاکستانی قوم کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 309215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش