0
Monday 21 Oct 2013 06:24

انتخابی دیو پاراچنار کی فضا پر دوبارہ سایہ فگن

انتخابی دیو پاراچنار کی فضا پر دوبارہ سایہ فگن
رپورٹ: ایس این حسینی

پورے ملک کی طرح پاراچنار میں بھی عید قربان پورے مذھبی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ کرم ایجنسی کے طول و عرض میں نماز عید کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوئے، لیکن گذشتہ سالوں کے برعکس اس سال دونوں عیدوں کے دوران پاراچنار شہر میں دو مقامات پر نماز عید ادا کی گئی۔ ایک اجتماع کراخیلہ روڈ پر واقع نئی عیدگاہ میں، جبکہ دوسرا اجتماع گورنمنٹ اسرار شہید ہائی سکول کے گراونڈ میں ہوا۔ گذشتہ انتخابات کے نتیجے میں ملت مظلوم پاراچنار کافی مشکلات بلکہ حادثات کا شکار ہوئی، جن میں سب سے بڑا حادثہ آپس کا نفاق ہے۔ آپس کے اس نفاق اور اختلاف کو ختم کرانے کی غرض سے پنجاب کے بزرگ علمائے کرام کے ایک وفد نے پاراچنار کا دورہ کرکے فریقین میں مصالحت کرانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی، اور اسکے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے تھے۔ دو ماہ تک اشتعال انگیز اجتماعات پر پابندی اسی مصالحت کی ایک کڑی تھی۔ مصالحتی وفد نے فریقین کو یہ یقین دھانی بھی کرائی تھی کہ مسئلے کا مستقل حل بھی ڈھونڈا جائے گا۔

کافی عرصہ گزرنے کے باوجود مسئلے کا کوئی مستقل حل سامنے نہ آنے پر گلگت سے تعلق رکھنے والے مرکزی جامع مسجد کے پیش امام کی مخالف قوتوں کی مایوسیاں بڑھ گئیں، اور پھر اسی کے ردعمل میں عید قربان کے موقع پر ہائی سکول کے اجتماع میں کی جانے والی تقریروں سے ایک بار پھر حالات خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ جس میں واضح الٹی میٹم دیا گیا کہ اگر علماء نے اپنے وعدے کے مطابق مسئلے کا حل جلد از جلد نہ ڈھونڈا تو آنے والے محرم کو قوم (انکے حامی قبائل) ازخود مرکزی امام بارگاہ میں مجالس کرانے کا بندوبست کرے گی، خواہ اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑی۔
ان تقریروں کے ردعمل میں اسکے دو دن بعد مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے خطبوں سے خطاب کے دوران مسجد کے گلگتی پیش امام علامہ شیخ نواز عرفانی نے بڑا تلخ لہجہ استعمال کیا۔ یوں محرم الحرام آنے سے قبل ہی غیروں کی بجائے اپنوں کے درمیان اختلافات کی پرانی خلیج نے مزید وسعت اختیار کرلی۔

واضح رہے کہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ شیخ محسن نجفی نے اس مسئلے کے حل کے لئے علامہ خورشید انور جوادی کی قیادت میں علماء کا ایک وفد پاراچنار بھیجا تھا، جنہوں نے کافی تگ و دو کے بعد فریقین  کو کچھ شرائط پر راضی کرکے مصالحت کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور بعد میں دونوں فریقوں کو اسلام آباد بلوا کر اپنے اپنے دعووں کے ثبوت فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی تھی، فریقین نے 10 ستمبر 2013ء کو اسلام آباد جاکر ثالثان کے رو برو اپنے اپنے دلائل اور ثبوت پیش کئے، نیز علامہ شیخ محسن علی نجفی کو دونوں فریقوں نے اپنا مشترکہ حَکَم تسلیم کرکے فیصلے کا اختیار بھی دیا۔ تاہم الیکشن سے لیکر حَکَم بنانے تک کئی ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس سلسلے کا کوئی حل سامنے نہ آنے کی وجہ سے عید کے دن اور اسکے دو دن بعد جمعہ کے خطبے میں ایک بار پھر عمل اور ردعمل سامنے آگیا۔ جس کے بعد کرم ایجنسی کی فضا ایک بار پھر آلودہ ہوگئی ہے۔ اس سلسلے میں ہم دونوں فریقوں سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں نیز ملک بھر کے جید علمائے کرام سے بالعموم جبکہ شیخ محسن نجفی اور علامہ ساجد علی نقوی سے بالخصوص التماس کرتے ہیں کہ کرم ایجنسی کے اس مسئلے میں زیادہ دلچسپی لے کر جلد سے جلد مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالیں۔
خبر کا کوڈ : 312775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش