1
0
Monday 28 Oct 2013 20:02

مغربی عوام اور حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں، پس پردہ محرکات

مغربی عوام اور حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں، پس پردہ محرکات
اسلام ٹائمز- امریکی جاسوسی ادارے سی آئے اے کے اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کی جانب سے اس ادارے کی طرف سے امریکی اور غیرامریکی مغربی عوام کی ٹیلی فون کالز اور الیکٹرانک کمیونیکیشن (ای میلز، چیٹنگ، انٹرنیٹ کالز) کی وسیع پیمانے پر جاسوسی پر مبنی انکشافات نے دنیا والوں کو حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ خاص طور پر برطانوی جریدہ گارجین وقفے وقفے سے مغربی عوام اور حکام کے خلاف سی آئی اے کی جانب سے انجام پائی ان جاسوسی سرگرمیوں کے بعض پہلووں کو منظرعام پر لا رہے ہیں۔ انہیں رپورٹس کے ذریعے فرانس اور جرمنی میں انجام پانے والی امریکی جاسوسی سرگرمیوں سے متعلق بعض انتہائی دلچسپ معلومات بھی سامنے آئی ہیں جو برلن اور پیرس کے حکام کی جانب سے رسمی طور پر ردعمل ظاہر ہونے کا باعث بھی بنی ہیں۔ 
 
امریکی حکومت اور جاسوسی اداروں کی جانب سے اپنی ہی عوام کے خلاف جاسوسی سرگرمیاں انجام دینا اگرچہ ایک غیراخلاقی امر جانا جاتا ہے لیکن پھر بھی ان سے اس کام کی توقع کی جا رہی تھی اور کی جاتی ہے۔ موجودہ رپورٹ میں ہمارا موضوع امریکہ کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر اپنے مخالف ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیاں نہیں بلکہ اس تحریر میں امریکہ کی جانب سے اپنے دوست اور اتحادی مغربی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ ممالک جن کے واشنگٹن سے دوستانہ تعلقات استوار ہیں اور حتی بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے قریبی اتحادی بھی تصور کئے جاتے ہیں۔ ہم مغربی ممالک کی عوام اور خاص طور پر حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 
 
انتہائی واضح ہے کہ اپنے ہی دوست اور اتحادی ممالک کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں ایک معمول کی بات نہیں بلکہ یہ سرگرمیاں کچھ خاص مقاصد کیلئے انجام پائی ہیں۔ ان میں سے ایک مقصد اپنے قریبی اتحادی ممالک پر قبضہ جمانے کی امریکی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجہ یا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے امریکی جاسوسی ادارے اپنے ہی مغربی دوست اور اتحادی ممالک اور حکمرانوں کی جاسوسی کرنے پر مجبور ہو گئے؟
 
مغربی حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں:
مغربی حکام جیسے جرمنی کی اینگلا مرکل کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں کے پس پردہ محرکات کو بیان کرنے سے پہلے چند ایک واقعات کی یادآوری ضروری سمجھتے ہیں۔ 
1.    کچھ عرصہ قبل اسرائیل کی سابقہ وزیر خارجہ زیپی لیونی نے بعض معروف عرب رہنماوں کے ساتھ اپنے ناجائز تعلقات کے بارے میں اہم انکشافات انجام دیئے۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ نے اسرائیل کے قومی مفادات کے حصول کیلئے بعض معروف عرب رہنماوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ زیپی لیونی نے انتہائی چالاکی کے ساتھ ان عرب رہنماوں کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کرنے ہوئے خفیہ طور پر ویڈیوز بھی بنا رکھی تھیں۔ اگرچہ بعد میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ان بیانات کی تردید شائع کی لیکن زیپی لیونی کے یہ اعترافات اپنا کام دکھا چکے تھے۔ 
 
سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی جو ان ناجائز تعلقات کی زندہ گواہ ہے ان عرب رہنماوں کیلئے شدید دردسر کا باعث بن سکتی ہے جن کے ساتھ اس نے ناجائز تعلقات قائم کر رکھے تھے اور ان کی ویڈیوز بھی بنا رکھی تھیں۔ لہذا وہ عرب رہنما اب اسرائیلی حکام کے سامنے بھیگی بلی بننے پر مجبور ہیں اور زیپی لیونی کی اسی چالاکی کی وجہ سے اسرائیلی حکام اس بات پر قادر ہیں کہ ان عرب رہنماوں کو بلیک میل کر کے ان سے اپنی مرضی کے کام نکلواتے رہیں۔ وہ عرب رہنما جو اس اسکینڈل میں ملوث رہے ہیں اب اسرائیل کے قومی مفادات کے خلاف چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھانے کی جرات بھی نہیں رکھتے۔ 
 
2.    حال ہی میں برطانیہ کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی میں کچھ ایسے انکشافات رونما ہوئے جنہوں نے اس ملک کے ذرائع ابلاغ میں زلزلہ ایجاد کر دیا۔ ہوا یوں کہ وقفے وقفے سے بی بی سی کے بعض انتہائی معروف اور پرانے اینکرز کے بارے میں سیکس اسکینڈلز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ یہ اسکینڈلز ایک دو افراد تک محدود نہ تھے بلکہ کئی بڑے بڑے اینکر پرسنز ان کی لپیٹ میں آ گئے۔ اگرچہ بی بی سی کا ادارہ بنیادی طور پر انتہائی کرپٹ ادارہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ اسکینڈلز منظرعام پر کیوں لائے گئے؟ کیا ان اسکینڈلز کے منظرعام پر آنے سے قبل بی بی سی میں اخلاقی انحطاط موجود نہ تھا؟ پھر اچانک کیا ہوا کہ یہ اسکینڈلز فاش ہونا شروع ہو گئے؟
 
اگر ہم ان واقعات کا بغور جائزہ لیں تو جان پائیں گے کہ ٹھیک اسی وقت جب یہ اسکینڈلز یکے بعد از دیگرے منظرعام پر آنا شروع ہوئے اور عالمی سطح پر رائے عامہ کو اپنی جانب مبذول کرنے لگے، اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھنے پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنے پر شدید تنقید سامنے آ رہی تھی۔ یہ تنقید برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے بھی انجام پائی تھی۔ البتہ یہ تنقید اس قدر شدید نہیں تھی جو اسرائیل کیلئے کسی خاص پریشانی کا باعث بن سکے لیکن اس حد تک تنقید بھی جناب بنجمن نیتن یاہو اور ان کے دوستوں کے مزاج کو گوارا نہیں گزری اور انہوں نے بی بی سی کے پول کھولنا شروع کر دیئے۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ بی بی سی کے یہ اسکینڈلز اسرائیل کے خلاف تنقید انجام دینے کے بعد منظرعام پر آئے اور اس سے پہلے کسی کو ان اسکینڈلز کے بارے میں خبر تک نہ تھی؟ 
 
مذکورہ بالا دو واقعات ایک قانون کلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو یہ ہے:
مغربی سیاستدانوں اور حکام کی زندگی میں اخلاقی بے راہروی، مالی کرپشن اور طاقت کے ناجائز استعمال جیسے سیاہ دھبوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر ان کی ٹیلی فون کالز اور الیکٹرانک کمیونیکیشنز جیسے ای میلز، چیٹنگ وغیرہ کی جاسوسی کے ذریعے ایسے ٹھوس شواہد ہاتھ میں آ سکیں جو ان کی زندگی میں موجود ان سیاہ دھبوں کو ثابت کر سکیں تو ان سیاسی شخصیات کو آسانی سے بلیک میل کر کے اپنی مرضی کے فیصلے کروانا کوئی مشکل کام نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف ایسی صورت میں جب بھی یہ سیاسی شخصیات یا ان سے وابستہ ادارے ہماری مطلوبہ پالیسیوں اور اہداف سے ہٹنے کی کوشش کریں تو ہم آسانی کے ساتھ ان کی لگام کھینچ کر انہیں رام کر سکتے ہیں۔ 
 
امریکی جاسوسی اداروں کی جانب سے مغربی دنیا کی معروف سیاسی شخصیات کی جاسوسی کا ایک بڑا محرک یہی امر ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ان سیاسی شخصیات کے تمام تر ویک پوائنٹس اس کے ہاتھ میں ہوں تاکہ وقت پڑنے پر انہیں ایک وفادار کتے کی مانند اپنا حکم ماننے پر مجبور کیا جا سکے اور اس طرح مغربی دنیا پر امریکہ کے سیاسی تسلط کو یقینی بنایا جا سکے۔ 
 
مغربی عوام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں:
مغربی ممالک درحقیقت امریکہ کیلئے ایک بڑی تجارتی منڈی تصور کئے جاتے ہیں جس کے صارفین دراصل وہی مغربی عوام ہیں۔ ایسی تجارتی منڈی میں غلبہ پیدا کرنے کیلئے تازہ ترین معلومات کا حصول انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ مغربی عوام کے رجحانات اور اشتیاقات کس جانب گامزن ہیں۔ 
 
کافی عرصے سے امریکی انٹیلی جنس اداروں نے بعض ایسے ہیوی ڈیوٹی سافٹ ویئرز تیار کر رکھے ہیں جن کی مدد سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع کرنے اور اس کی analysis کرنے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ انہیں میں سے ایک سافٹ ویئر کا نام “Big Data” ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی جمع آوری اور تجزیئے کا مقصد مغربی ممالک کی اس تجارتی منڈی کا علمی جائزہ لینا اور صارفین کے رجحانات کی پیشین گوئی کرنا ہے تاکہ اپنی انڈسٹری اور پروڈکٹس کو ایک خاص سمت میں گائیڈ کیا جا سکے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کی جانب سے مغربی عوام کے خلاف اس عظیم پیمانے پر جاسوسی سرگرمیوں کا بڑا مقصد یورپی منڈی کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ 
 
امریکی جاسوسی ادارے مغربی عوام کی جاسوسی کے ذریعے ان کی ضروریات کا اندازہ لگاتے ہیں تاکہ امریکی صنعت گران کی مدد سے یورپی منڈیوں پر امریکی برتری کو برقرار رکھا جا سکے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اقتصادی برتری کو برقرار رکھنے کیلئے انٹیلی جنس برتری انتہائی ضروری امر تصور کیا جاتا ہے۔ یورپی عوام کے بارے میں امریکی جاسوسی اداروں کی جاسوسی سرگرمیاں امریکہ کی اقتصادی برتری کو یقینی بناتی ہیں اور اپنے طاقتور یورپی حریفوں کو شکست دینے کا باعث بنتی ہیں۔ 
 
امریکہ کی جانب سے یورپی ممالک کے شہریوں کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جا سکتی ہے۔ یہ وجہ ان ممالک میں امریکی جاسوسی اداروں کی جانب سے انسانی قوت کی تلاش بیان کی جا سکتی ہے۔ ہر قسم کے انٹیلی جنس اداروں کا ایک اہم ہدف مختلف ممالک میں ایسے افراد پیدا کرنا ہوتا ہے جو اس کا ایجنٹ بن کر اپنے ملک میں اس کیلئے موثر انداز میں کام کر سکیں۔ عوامی سطح پر جاسوسی کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں ایسے افراد کی تشخیص ہو جاتی ہے جن میں امریکی جاسوسی اداروں کیلئے ایجنٹ بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ 
 
البتہ مغربی عوام اور حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں کے پس پردہ عوامل صرف مذکورہ بالا نکات تک ہی محدود نہیں۔ ہمیں اس نکتے کی جانب بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اپنے خلاف امریکی جاسوسی منظرعام پر آنے کے بعد مغربی حکام کی جانب سے ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ شائد اس کی وجہ بھی یہ ہو سکتی ہے کہ مغربی حکام امریکی جاسوسی اداروں کے پاس موجود اپنی معلومات کی وجہ سے زیادہ شدید ردعمل دکھانے سے قاصر ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے پول بھی نہ کھل جائیں۔ 
خبر کا کوڈ : 314741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
gucci mane north pole lyrics اسلام ٹائمز - مغربی عوام اور حکام کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیاں، پس پردہ محرکات
gucci handbags http://www.gucci-handbags-clearance.com
ہماری پیشکش