0
Tuesday 29 Oct 2013 16:15

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کوئٹہ سے کراچی لانگ مارچ کا آغاز

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کوئٹہ سے کراچی لانگ مارچ کا آغاز

اسلام ٹائمز۔ گذشتہ روز لانگ مارچ شروع کرنے سے قبل نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے بلوچستان میں ( لوگوں کو) مارو اور پھینکو کی پالیسی تیز کر دی ہے۔ جذبات سے مغلوب مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اُٹھارکھے تھے۔ جن پر تحریر تھا، بلوچ سیاسی کارکنوں کا قتل بند کرو، ہم اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں اور ہم ماورائے عدالت قتل کی مذمت کرتےہیں۔ نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں۔ وی بی ایم پی کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان کو اغوا کیا ہے، تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے تاہم آفیشلز ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی اصل تعداد اس سے کہیں کم ہے جو وی بی ایم پی بیان کرتی ہے۔ ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہم اپنے عزیزوں کی بازیابی کیلئے گذشتہ پانچ برس سے احتجاج کر رہے ہیں اور مجاز ادارے کورٹ کے احکامات تک پر عمل نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ شرکاء لانگ مارچ کیلئے کوئٹہ سے روانہ ہو گئے ہیں۔ اس میں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ شامل ہیں جبکہ جیسے جیسے یہ کارواں آگے بڑھے گا، اس میں دیگر علاقوں سے بھی لوگ شامل ہوتے جائیں گے۔ اس موقع پر قدیر بلوچ نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں لاپتہ بلوچ افراد کی لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دوران بھی متعدد بلوچ سیاسی کارکنوں کو اٹھایا گیا ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کئی بار کہا ہے کہ وہ صوبے میں مسخ شدہ نعشوں کا سلسلہ بند کر دیں گے۔ انہوں نے آج کراچی پریس کلب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر دسمبر میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ گمشدہ افراد کی بحالی میں ناکام ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ مزاحمتی گروہ ڈاکٹر بلوچ نے کسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

خبر کا کوڈ : 315040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش