0
Wednesday 30 Oct 2013 01:10
امیر اور غریب کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گی

نجکاری کا اعلان یا پاکستان برائے فروخت کا اشتہار

نجکاری کا اعلان یا پاکستان برائے فروخت کا اشتہار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں ریاستی اداروں کی نجکاری کے سب سے بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ 68 قومی اداروں کو سرمایہ داری کی چھری سے ذبح کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ میڈیا کی طرف سے پھیلائی جانے والی خبروں کے برعکس نجکاری کی فہرست میں شامل زیادہ تر ریاستی ادارے خسارے کا شکار نہیں ہیں۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، بڑے بینک، آئل ریفائنریاں اور ایسے کئی دوسرے ادارے انتہائی منافع بخش ہیں اور پچھلی کئی دہائیوں سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ریاستی آمدن کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو خسارے کو کم کرنے کے لئے نجکاری کا حکومتی دعویٰ سراسر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ نجکاری موجودہ حکومت کی سرپرستی کرنے والے ان سرمایہ داروں کی ہوس پوری کے لئے کی جا رہی ہے جو لمبے عرصے سے ریاستی اداروں پر منڈلا رہے ہیں اور پاکستانی عوام کے خون پسینے سے تعمیر ہونے والے منافع بخش اثاثوں کی بوٹیاں نوچنے کے لئے بےتاب ہیں۔

موجودہ حکومت کا زیادہ تر حصہ سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جن کے لئے نجکاری کی پالیسی انتہائی فائدہ مند اور منافع بخش ثابت ہوگی۔ نجکاری کی فہرست میں بینکنگ اور فنانس کا شعبہ، آئل گیس اور توانائی کا شعبہ، کھاد بنانے کی فیکٹریاں، انجینئرنگ سے وابستہ ادارے، معدنیات اور قدرتی وسائل کے شعبہ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، ریلوے اور اس سے وابستہ تمام تر فیکٹریاں اور ورک شاپس، ریپبلک موٹرز اور گاڑیاں بنانے کے دوسرے ریاستی ادارے، سیر و سیاحت کے ادارے، ٹیلیفون انڈسٹریز آف پاکستان، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن، یوٹیلٹی سٹورزکاپوریشن اور شالیمار ریکارڈنگ کمپنی جیسے ادارے شامل ہیں۔ حتیٰ کہ کنونشن سنٹر اسلام آباد کی بھی بولی لگائی جائے گی۔ ریاست کے پاس صرف فوج، پولیس، جیل خانے اور کچھ دوسرے شعبے بچیں گے۔ یہ دراصل عوام کے معاشی قتل عام کا کھلا منصوبہ ہے۔

عالمی سطح پر سرمایہ داروں کو درپیش بحران کے پیش نظر دنیا میں کہیں بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ سرمائے کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، بنک قرضے دینے سے ہچکچا رہے ہیں اور 2008ء کے بعد سے نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں گہری کھائی کی طرف گامزن ہیں۔ کون ہے جو توانائی کے بحران، پیداواری لاگت میں اضافے، تباہ حال انفراسٹرکچر اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟ چنانچہ نجکاری میں نقلی شناختوں، جھوٹے ناموں اور جعلی فرموں کا استعمال کر کے ادارے بیچنے والا حکمران ٹولہ بولی لگا کر خود ہی انہیں خرید بھی لے گا۔ شروع سے آخر تک یہ تمام تر عمل ایک ڈھونگ اور ناٹک ہوگا۔ ایک ایسے سماج میں ''منصفانہ‘‘ اور ''شفاف‘‘ جیسے الفاظ کوئی حیثیت نہیں رکھتے جہاں ریاست بذات خود اوپر سے نیچے تک کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔

انیس سو اسی کی دہائی میں برطانوی وزیر اعظم مارگرٹ تھیچر کی جارحانہ نجکاری نے دائیں بازو کے کئی تجربہ کار اور سینئر سیاستدانوں کو بھی ششدر کر دیا تھا۔ 1957ء سے 1963ء تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہنے والے کنزرویٹو پارٹی کے سیاستدان ہیرلڈ میکملن نے اس نجکاری کو ''گھر کے برتنوں کی فروخت‘‘ قرار دیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے 1970ء کی دہائی کے وسط تک یورپ میں ہونے والی تیز ترین ترقی اور معاشی نمو دراصل معیشت میں بڑے پیمانے کی ریاستی مداخلت کا نتیجہ تھی۔ جنگ کے بعد شروع ہونے والا یہ ''سرمایہ داری کا سنہری دور‘‘ دراصل ریاستی سرمایہ داری اور کینشین ازم کی اصلاحات کا نتیجہ تھا جن کے ذریعے زائد پیداوار کے بحران کو وقتی طور پر ٹالا گیا۔ جنوبی کوریا اور جاپان جیسی بڑی ایشیائی معیشتیں بھی ریاستی منصوبہ بندی کے ذریعے تعمیر کی گئی تھیں۔ جنوب ایشیائی ممالک میں بھی یہی ماڈل اپنایا گیا۔ نام نہاد ''نہرووین سوشلزم‘‘ کے تحت بھارت کی 74فیصد معیشت کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں ہونے والی معاشی ترقی بھی معیشت میں ریاست کی مداخلت اور انفراسٹرکچر کے بڑے ریاستی منصوبوں کا نتیجہ تھی۔ تاہم بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں اس عہد کی بلند شرح نمو عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے میں ناکام رہی۔

کمزور سرمایہ داری اور 'غیر ہموار و مشترک ترقی‘ کا طرز ارتقاء رکھنے والے پاکستان جیسے معاشروں میں آزاد منڈی کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں سے غربت کی چکی میں پسنے والے کروڑوں لوگوں کی محرومیوں اور مفلسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم، صحت، رہائش اور دوسری ضروریات زندگی تک ہر شہری کی رسائی کوئی رعایت نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے لیکن بالخصوص 1980ء کے بعد سے ان شعبوں میں نجی سرمائے کا کردار بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ ریاست یہ سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ نجی شعبے کی مہنگی خدمات خریدنے کی صلاحیت نہ رکھنے والی عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے بالکل محروم ہے۔

نجکاری کے نئے حملوں سے مہنگائی اور بیروزگاری کے مسائل شدت اختیار کر جائیں گے، امیر اور غریب کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گی اور عوام کی معاشی و سماجی بدحالی میں اضافہ ہوگا۔ جس ملک میں کالی معیشت کا حجم سرکاری معیشت سے تین گنا ہو جائے وہاں کرپشن، بدعنوانی اور دھوکہ بازی سماجی و اخلاقی اقدار بن جاتی ہیں۔ ''پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ والی پی پی پی حکومت نے عوام کو مہنگائی اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت ہر حد پار کرکے پورا ملک ہی بیچ دینا چاہتی ہے۔ عوام کی برداشت آخری حدوں کو چھو رہی ہے، عوام کب تک یہ استحصال، یہ ذلت برداشت کر سکتے ہیں؟
خبر کا کوڈ : 315325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش