0
Tuesday 29 Oct 2013 16:10

بالشخیل میں ناجائز آبادکاری، فریقین کے درمیان مسلح تصادم میں ایک خاتون جاں بحق

بالشخیل میں ناجائز آبادکاری، فریقین کے درمیان مسلح تصادم میں ایک خاتون جاں بحق
اسلام ٹائمز۔ بالش خیل کے طوری قبیلے کی جائداد میں علاقہ اورکزئی کے غیر داخل کار پاڑہ چمکنی قبیلے کی جانب سے مسلسل آبادکاری اور حکومت کی مسلسل غفلت کے نتیجے میں آج 29 اکتوبر کو اس علاقے میں مسلح تصادم ہوا جسکے نتیجے میں بالش خیل قبیلے کی ایک خاتون جاں بحق ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق عرصہ پانچ سال سے بالش خیل کی ملکیتی جائداد میں ناجائز آباد کاری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاڑہ چمکنی قبیلہ اس سلسلے کو مزید وسعت دے رہا ہے، چنانچہ کل 28 اکتوبر کو پاڑہ چمکنی قبیلے نے بالش خیل کے علاقے میں مزید گھس کر نئی آباد کاری کی نیت سے چونا ڈالنا شروع کیا جس کے رد عمل میں مبینہ طور پر اہلیان علاقہ بالش خیل نے حکومت سے رجوع کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی، تاہم حکومت نے وہی پرانی طفل تسلیاں دیتے ہوئے انہیں ٹرخادیا۔ اس کے بعد متاثرہ بالش خیل قبیلہ انجمن حسینیہ کے پاس گیا، اور انہیں اپنا دکھڑا سنایا۔ انجمن حسینیہ نے کمک کی یقین دھانی کراتے ہوئے کہا کہ تم لوگ بھی اپنے علاقے میں آباد کاری شروع کردو ہم ہر طرح کی کمک کریں گے۔

پہلے ہی سے حکومت سے مایوس آج صبح دس بجے اہلیان علاقہ نے نئی آباد کاری روکنے اور حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی نیت سے اپنے ہی علاقے میں مکانات تعمیر کرانے کے لئے کام شروع کردیا۔ جس پر حکومت نے آکر انہیں ڈرا دھمکا کر کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔
حکومت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گھروں کا محاصرہ کرکے ان سے 6 افراد کو بھی گرفتار کرلیا۔ اسکے بعد حکومت نے مزید ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر اندھا دھند فائرنگ کرکے گھر کے اندر ایک خاتون کو نشانہ بنایا جسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچادیا گیا تاہم وہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔ 
اس کے ساتھ ہی مقابل فریق پاڑہ چمکنی اور اہلیان صدہ، جنہوں نے پہلے ہی سے مورچے سنبھالے ہوئے تھے، نے بھی فائرنگ شروع کردی۔ دوپہر ایک بجے دونوں جانب سے ایکا دکا فائرنگ شروع ہوگئی۔ اور جنگ کا سا ماحول بن گیا۔ عینی شاھدین کے مطابق جنگ کا ماحول بنانے میں بدترین کردار سول اور فوجی انتظامیہ کا تھا۔ جبکہ فریقین حتی الوسع جنگ چھڑنے سے کتراتے تھے۔

اس واقعے سے پورے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی، اہلیان علاقہ کے مطابق حکومت نے ظلم کی انتہا کرکے مخالف فریق کی پانچ سالہ خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے طوری قبیلے کو الٹی میٹم دیا ہے کہ 70 افراد کی گرفتاری دے دے۔ انکا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگوں کی شکایت سننے کی بجائے حکومت نے ہمارے گھروں کے اندر فائرنگ کرکے لوگوں کو نشانہ بنایا اور چھ افراد کو گرفتار کرنے کے باوجود مزید گرفتاری بھی طلب کررہی ہے۔ 

امن قائم کرنے میں ناکام ہوجانے اور محرم کے ایام قریب ہونے کے باعث حکومت نے مشران کی کمک طلب کی۔ طوری قبیلے کے مشران و عمائدین نے فوری طور پر جاکر اپنے مشتعل جوانوں کو مورچے خالی کرانے پر راضی کردیا۔ چنانچہ اس وقت محاذ میں مکمل خاموشی ہے تاہم کشیدگی پائی جاتی ہے۔
اہلیان علاقہ اس تمام تر صورتحال کے لئے مقامی انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے مسئلے کو مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہے جسکی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت اور انجمن حسینیہ کے درمیان گرفتاریوں کے سلسلے میں مذاکرات ہورہے ہیں۔

دوسری جانب مقامی علماء، عمائدین اور رہنماؤں نے اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد کرتے ہوئے اسکی بھرپور مذمت کی ہے۔ سابق سنیٹر اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلی علامہ سید عابد حسینی نے اس موقع پر کہا کہ حکومت طوری قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کررہی ہے۔ جس نے کبھی بھی مخالف فریق کو کسی بھی غلطی اور جرم کی سزا نہیں دی۔ جبکہ طوری قبیلے کے لوگوں کو معمولی معمولی باتوں پر پابند سلاسل کرتی ہے نیز ان پر بھاری جرمانے عائد کرتی ہے۔ چند ماہ قبل بھی اہلیان بالشخیل و ابراہیم زئی کو اپنے حقوق کے لئے پر امن دھرنا دینے پر گرفتار کرلیا جو ابھی تک جیل میں ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاڑہ چمکنی از خود کچھ نہیں کرسکتی بلکہ وہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما پر کررہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 315418
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش