0
Wednesday 30 Oct 2013 20:10

مسئلہ بالش خیل اور مقامی انتظامیہ

مسئلہ بالش خیل اور مقامی انتظامیہ
رپورٹ: ایس این حسینی

بالش خیل پاراچنار سے پشاور جاتے ہوئے صدہ کے قریب طوری بنگش قبائل کا آخری گاؤں ہے، اگرچہ صدہ سے آگے جاتے ہوئے تقریبا 13 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد سے طوری قبائل کے دیہات دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں جن میں آڑاولی سیدانو کلے، ماروخیل، نظاری کلے، علی زئی اور عزیزو کلے قابل ذکر ہیں۔  

بالشخیل کے مسئلے پر 2 ماہ تک احتجاج:
بالشخیل میں طوریوں کا ذیلی قبیلہ غنڈی خیل آباد ہے۔ جس کے شمال میں تقریبا 9 ہزار جریب پر مشتمل بنجر علاقہ ہے۔ کاغذات مال کے مطابق مذکورہ بنجر علاقہ بالش خیل کے غنڈی خیل اور خار کلی کے مستقل باشندوں کے درمیان مشترکہ ہے۔ 2007ء کے فسادات کے دوران اورکزئی علاقے، جسے آج کل وسطی کرم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پاڑہ چمکنی قبیلے نے سینیٹر رشید اور مقامی انتظامیہ کی ایما پر اس علاقے میں ناجائز آباد کاری شروع کردی۔ جسکے خلاف اپریل 2011ء میں سابق سنیٹر علامہ سید عابد حسینی نے آواز بلند کرتے ہوئے، اسکے خلاف باقاعدہ احتجاج شروع کیا اور حکومت سے ناجائز آبادی کو مسمار کرنے کا مطالبہ کیا، آبادکاری کو ختم نہ کرنے کی صورت میں ازخود کاروائی کی دھمکی دی، اور دو ماہ تک مقبوضہ علاقے کا محاصرہ کئے رکھا، اس زمانے کے پی اے محمد بصیر خان نے بالآخر مجبور ہوکر علاقے کو طوری قبیلے کی املاک قرار دیکر ناجائز آبادی کو مکمل طور پر ڈھانے کا فیصلہ کردیا۔ جو آج تک آن دی ریکارڈ موجود ہے۔ تاہم بدقسمتی سے اپنوں ہی میں سے بعض بااثر لوگوں نے حکومت کے پاس جاکر کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس سے یہ مسئلہ دوبارہ سرد خانے میں پڑ گیا۔

سنیٹر رشید کا کردار:
بالش خیل قبیلے کے لوگوں نے بار بار اپنی فریاد حکومت کے علاوہ قوم کے موثر افراد تک پہنچائی ہے۔ لیکن ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مخالف پاڑہ چمکنی قبیلے کا سینیٹر رشید خان، جو اس مسئلے کا اصل موجد اور روح رواں ہے، حکومت بالا میں بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے، جبکہ ایوانوں یا کسی اور اہم مقام پر رشید کی ہم پلہ ہماری کوئی موثر شخصیت موجود نہیں ہے، اور اسی رشید کے کہنے اور اسی کی مدد سے اسکے قبیلے کے لوگ مسلسل اس علاقے میں آباد کاری کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جو بھی اس علاقے میں آبادی کرنا چاہے اسے تین کمروں پر مشتمل مکان مع چاردیواری کے مکمل خرچہ سینیٹر رشید خان ہی فراہم کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس علاقے میں اپنے قبیلے کے افراد کو بھاری تعداد میں بسائے تاکہ انکی طاقت یکجا ہو۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے یہ کارنامہ بھی انجام دیا ہے کہ پاڑہ چمکنی کو اسی علاقے (میرو کس) سے ہوکر صدہ سے ملحق کردیا ہے جبکہ پاڑہ چمکنی کا روایتی اور پرانا راستہ کڑمان سے ہوکر گزرتا ہے۔ جو کہ طوری قبائل کا علاقہ ہے۔

حالیہ مسئلہ اور حکومت کی بےانصافی:
اس وقت ایک اندازے کے مطابق 800 سے زائد ناجائز مکانات تعمیر ہو چکے ہیں اور مزید بن رہے ہیں، اور زمین سے ان کا کوئی تعلق نہیں جبکہ گذشتہ دنوں بالش خیل نے جب اپنی ہی زمین میں صرف نقشے کھینچے اور ابھی تعمیر کی نوبت بھی نہیں پہنچی تھی، تو مخالف فریق سے قبل حکومت نے فریق بن کر بالش خیل کے خلاف کارروائی کچھ اس انداز سے شروع کی کہ پہلے 6 افراد کو گرفتار کرلیا، پھر انکے مورچوں اور گھروں پر فائرنگ کر دی حتی کہ گھر کے اندر ایک بےگناہ خاتون کو قتل کر دیا، اسی پر اکتفا نہ کیا اب 70 افراد کی مزید گرفتاری بھی مانگ رہی ہے۔ 
جب بالش خیل جاکر حکومت سے اپنی شکایت کرتے ہیں تو کبھی کچھ بہانہ کرتے ہیں کبھی کچھ، کبھی کہتے ہیں کہ وہاں ہم کارروائی نہیں کرسکتے، کبھی کہتے ہیں، کہ تم لوگ شورکی میں آبادکاری بند کرو، جو کہ طوریوں کا علاقہ ہے، یعنی حکومت خود  ہی فریق بنی ہوئی ہے تو ایسی حکومت سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔

بوڑھے بزرگوں کا کہنا ہے کہ انگریز حکومت میں عدل و انصاف بہت زیادہ تھا۔ کبھی کوئی مظلوم شکایت کرتا تو فورا انصاف فراہم کیا جاتا تھا جبکہ آج کی یہ مسلمان حکومت ملک کے کسی علاقے میں بھی انصاف نہیں کرتی۔ شیعوں کو نہ عدالتوں میں انصاف ملتا ہے نہ کچہریوں میں، پولیس سے، نہ ہی ایوانوں میں، کسی بھی جگہ انہیں انصاف نہیں ملتا۔ انکے قیدیوں کو فوراً سزا دی جاتی ہے جبکہ کھلے عام دہشتگردی کرنے والوں سے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ انہیں ملک کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تو بعض شیعہ قائداعظم ہی پر اپنا غصہ نکالتے ہیں کہ اس سے تو مشترکہ ہندوستان ہی اچھا تھا کم از کم انصاف تو ملتا، خواتین اور بچے تو محفوظ ہوتے، گھر بار اور املاک تو محفوظ ہوتیں۔
خبر کا کوڈ : 315661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش