1
0
Saturday 2 Nov 2013 11:17

حکیم اللہ محسود کون تھا؟

حکیم اللہ محسود کون تھا؟
     1989ء میں جنوبی وزیرستان کے علاقے ٹکئی میں پیدا ہونیوالے حکیم اللہ محسود کا اصل نام جمشید محسود تھا۔ حکیم اللہ محسود کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود کے ڈپٹی بھی رہے۔ پاکستانی طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود پہلی مرتبہ 2007ء میں پاکستان فوج کے خلاف حملوں کی وجہ سے ایک بے رحم شدت پسند کے طور پر ابھرے۔ اس وقت تک وہ طالبان کے کئی کمانڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا ہے۔ 2009ء میں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے۔ امریکہ نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قمیت پانچ ملین ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔ پاکستان نے بھی حکیم اللہ کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ 

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود نے کوئی باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ حکیم اللہ محسود کے علاوہ وہ ذوالفقار محسود کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ تاہم ان کا اصل نام جمشید تھا۔ حکیم اللہ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے گاؤں کوٹکی سے تھا۔ وہ محسود قبیلے کے ذیلی شاخ آشینگی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے صوبہ سرحد کے ضلع ہنگو کے ایک گاؤں شاہو میں ایک مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی جہاں وہ بیت اللہ محسود کے ہمراہ پڑھے تھے۔ تاہم دینی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی دونوں طالبان کمانڈروں نے مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔ حکومت کے خلاف جب کوئی بڑا واقع ہوا ہے تو اس میں طالبان کی قیادت حکیم اللہ ہی کرتے رہے تھے۔ ان کے پیش رو بیت اللہ محسود میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے تھے تاہم اس کے بر عکس حکیم اللہ میڈیا پر ہیرو کے طور پر سامنے آنا پسند کرتا تھا۔

 2004ء میں جب بیت اللہ محسود منظر عام پر آئے تو حکیم اللہ محسود ذوالفقار محسود کے نام سے ان کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان میں جنگی کمانڈر کے طور پر زیادہ جانے جاتے تھے۔ تحریک کے امیر مقرر ہونے سے قبل وہ تین قبائلی ایجنسیوں خیبر، اورکزئی اور کرم ایجنسی کے کمانڈر تھے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ خیبر ایجنسی میں نیٹو افواج کو سامان لے جانے والی گاڑیوں پر حملے کرتے تھے جب کہ کرم ایجنسی میں شعیہ سنی فسادات میں بھی ملوث رہے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کراچی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہا ہے جبکہ کئی بار اسلام آباد میں بھی مقیم رہا۔ پچھلے چند برسوں میں فوج کے شدت پسندوں کے خلاف سخت آپریشنز کے بعد حکیم اللہ نے اپنی نقل و حرکت کو وزیرستان اور دیگر ایجنسیز تک ہی محدود رکھا ہوا تھا۔

ڈرون حملوں میں اب تک طالبان اور القاعدہ کے کئی اہم رہنما مارے جا چکے ہیں۔ نیک محمد وزیر 18جون 2004ء کو امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ ابوللیث اللبی 29 جنوری 2008ء، اسامہ الکینی یکم جنوری 2009ء، بیت اللہ محسود 5 اگست 2009ء کو ایک ڈرون حملے میں مارا گیا، اسے دہشت گردی کے دیگر واقعات کے علاوہ بینظیر بھٹو کی شہادت میں بھی ملوث بتایا جاتا تھا۔ طاہر یلدشیف 27 اگست 2009ء، قاری محمد ظفر 24 فروری 2010ء، القاعدہ افغانستان کا ٹاپ کمانڈر مصطفی ابو یزید 21 مئی 2010ء، حرکت الجہاد الاسلامی کا رہنما الیاس کشمیری 3 جون 2011ء، ملا نذیر 3 جنوری 2013ء اور طالبان کا ڈپٹی کمانڈر ولی الرحمان 28 مئی 2013ء کو مارا گیا۔
خبر کا کوڈ : 316732
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

hakimullah ka taaloq takai sy nahi blky kotkai sy hai
ہماری پیشکش