0
Saturday 2 Nov 2013 15:27

اکبر بگٹی قتل نہیں ہوئے خودکشی کی تھی، حافظ حسین احمد کا انکشاف

اکبر بگٹی قتل نہیں ہوئے خودکشی کی تھی، حافظ حسین احمد کا انکشاف
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد اپنی طرز کے منفرد سیاستدان ہیں، سیاسی مزاح کی حس ان میں بہت زیادہ ہے، سیاست میں پیر صاحب پگاڑا ذومعنی باتیں کرنے کے ماہر تھے لیکن ایک تو وہ بہت کم بولتے تھے دوسرا ان کی گفتگو سے واضح نہیں ہوتا تھا کہ وہ کس سے محبت کر رہے ہیں اور کس کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، لیکن وہ بھی حال کی گفتگو کرتے تھے۔ لوگ ان کی گفتگو سے بہت زیادہ محظوظ ہوتے تھے، خاص کر ان کی باتیں میڈیا کیلئے چٹکلے ہوتی تھیں، لیکن سیاست میں ان کے بعد 2 شخصیات ایسی ہیں جن کو فی البدیہہ بولنا بھی آتا ہے، پھبتیاں بھی کس لیتے ہیں، اپنی بات بھی کر جاتے ہیں اور لوگوں کو ’’بور‘‘ بھی نہیں ہونے دیتے۔ ان دونوں شخصیات پر الفاظ نازل ہوتے ہیں۔ ان میں حافظ حسین احمد اور شیخ رشید شامل ہیں۔ دونوں شخصیات کی سیاست منفرد ہے، دونوں عوامی مزاج کے مطابق بات کرنے کا فن جاتے ہیں اور عوام کی بات کرتے ہیں۔ شیخ رشید تو لاہور آتے جاتے رہتے ہیں لیکن حافظ حسین احمد کوئٹہ سے اسلام آباد زیادہ جاتے ہیں، لاہور بہت کم آتے ہیں۔ وہ لاہور میں صحافی احسان ناز کی بیٹی کی وفات پر ان سے تعزیت کرنے کیلئے آئے۔ اس موقع پر انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے گفتگو کی، جس میں انہوں نے بعض معاملات پر اہم انکشاف کئے۔

انہوں نے بتایا کہ اکبر بگٹی پر ان کی رہائش گاہ ڈیرہ بگٹی پر انہیں ہلاک کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا، لیکن وہ اس جان لیوا حملہ میں بال بال بچ گئے، اسی حملہ کے حوالے سے ایک پارلیمانی وفد انہیں ملنے ڈیرہ بگٹی گیا، جس میں میں بھی شامل تھا، اکبر بگٹی نے بتایا کہ وہ سیٹلائٹ فون پر کسی سے بات کر رہے تھے اور باتیں کرتے کرتے ٹہل رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کا ملازم بھی ٹہل رہا تھا، ابھی انہوں نے اپنی بات مکمل کرکے فون ملازم کو پکڑایا ہی تھا کہ وہ فون لے کر تھوڑے فاصلے پر ہی پہنچا تھا کہ ایک گائیڈڈ میزائل نے اسے ہٹ کر دیا جس سے اس کے چیتھڑے اڑ گئے، اکبر بگٹی نے دیوار پر لگے اس کے خون کے چھینٹے بھی دکھائے۔ دوسرا انہوں نے انکشاف کیا کہ غار میں اکبر بگٹی کو مارا نہیں گیا تھا بلکہ اس نے خود اپنے آپ کو بارود سے اڑا لیا تھا۔ جس میں فوج کے اعلٰی افسروں سمیت فوجی افسران بھی مارے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اکبر بگٹی بڑا ضدی آدمی تھا۔ بلوچ روایت کے مطابق جب وہ ناراض ہوتے ہیں تو پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں۔ اکبر بگٹی بھی پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے ایک غار کو اپنی کمین گاہ بنایا ہوا تھا، حکومت انہیں گرفتار کرنا چاہتی تھی لیکن اکبر بگٹی نے اپنا ہی فیصلہ کیا ہوا تھا۔ حکومت نے بگٹی قبیلہ کے ایک آدمی کو درمیان میں ڈالا اور اسے کہا کہ وہ اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دے اور اس حوالے سے فوجی افسران ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاید میجر یا کرنل رینک کے افسر تھے۔

اکبر بگٹی نے کہ کہا وہ بات کرنے کیلئے تیار ہیں، لیکن میرا یہ مقام نہیں کہ میں میجر یا کرنل سے بات کروں۔ ان کے اعلٰی عہدیداروں سے بات کرنے کو تیار ہوں، جس پر فوجی افسروں نے وائرلیس پر بات کی تو وہ بات کرنے کیلئے تیار ہوگئے لیکن اکبر بگٹی نے اگلے دن 11 بجے تک کا وقت مانگا۔ اگلے دن کا وقت بھی ہوگیا۔ اس دوران اکبر بگٹی نے اپنے پوتے براہمداغ بگٹی اور دوسرے ساتھیوں کو وہاں سے نکل جانے کی ہدایت کی اور اپنی غار میں ہر طرف بارود نصب کر لیا۔ اگلے دن ایک جی او سی بریگیڈیئر سمیت 6 فوجی افسر اکبر بگٹی سے بات کرنے کیلئے پہنچے تو گائیڈ انہیں لے کر غار کے اندر چلا گیا اور خود باہر نکل آیا۔ ابھی وہ غار کے دہانے پر ہی پہنچا تھا کہ اکبر بگٹی نے اپنے آپ کو بارود سے اڑا لیا، جس سے وہاں غار کے اندر آنے والے 6 فوجی افسروں بھی مارے گئے۔ اکبر بگٹی کسی صورت بھی اپنے آپ کو حکومت کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اکبر بگٹی آخری دنوں مفلوج ہوچکے تھے، انہیں خون جمنے کی بیماری تھی، جس کے باعث ان کی ایک ٹانگ خون جمنے کی وجہ سے کام نہیں کرتی تھی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف نے امریکہ سے ڈرون حملوں بارے معاملات طے کر رکھے تھے، پاکستان کے ادارے ڈرون حملوں کے حوالے سے انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے تھے۔ ایک دفعہ پاکستان کو بتائے بغیر ایک ڈرون حملہ کر دیا گیا تو پاکستان نے ان کے سفارتکار کو لکھا کہ اس سے آپ اپنے اور ہمارے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں، اگر آپ بغیر اطلاع ڈرون حملہ کریں گے تو کسی نے اگر ڈرون مار گرایا تو ہماری ذمہ داری نہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون بارے پاکستان کی پالیسی مشرف سے لے کر موجودہ حکومت کے آج کے دن تک مسلسل چلی آ رہی ہے۔ ہماری ایجنسیاں حملہ کی جگہ پر موبائل چپ بھجواتی ہیں تو اس کے سگنل پر وہاں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکہ کئی بار کہہ چکا ہے کہ کوئٹہ میں طالبان شوریٰ ہے، کراچی میں ملا برادر ہیں، لاہور میں بھی القاعدہ کے ممبرز موجود ہیں، لیکن یہاں ڈرون حملے نہیں ہوتے کیونکہ حکومت نے امریکہ کو یہاں حملوں کی اجازت نہیں دی۔ ڈرون حملے صرف قبائلی علاقوں میں اس لئے ہوتے ہیں کہ وہاں حکومت نے اجازت دی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی و یو این او کی افواج کے حملے کے بعد جب معاہدہ کرنے والا ادارہ ناراض ہوگیا تو 7 ماہ تک یو این او کی سپلائی معطل رہی۔

ان 7 ماہ میں پاکستانی اداروں نے لاجسٹک سپورٹ اور معلومات نشر نہ کی، جس کی وجہ سے 7 ماہ تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا، لیکن جونہی سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا، یعنی مک مکا ہوا تو اس کے فوری بعد ڈرون حملے دوبارہ شروع ہوگئے۔ ڈرون کے بارے میں مشرف نے جو معاہدہ کیا تھا آج تک اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے، جب تک ہمارے ادارے یہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان نہیں کریں گے، یہ ڈرون حملے ہوتے رہیں گے۔ ایک دفعہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک تصویر شائع کی، جس میں چار ڈرون طیارے شمسی ایئربیس پر کھڑے دکھائے گئے تھے، اسی وقت وزیر دفاع احمد مختار سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو عقلمند وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے انہیں ڈرون پارک کرنے کیلئے جگہ دی ہے، جس پر میں نے کہا کہ وہ یہاں سے ڈرون تو اٹھا کر افغانستان لے جاتے ہیں، جہاں سے وہ حملہ آور ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا گیا، ایمل کانسی کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا، اس طرح پرویز مشرف کو بھی بے گناہ قرار دیا جا رہا ہے۔ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ ہم نے ملا برادر کو امریکہ کے کہنے پر رہا کیا ہے، پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی سے قبل ہی پولیس بے گناہ قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کو جبراً حکومت دی گئی ہے، جس طرح پرویز مشرف کہتا تھا کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا، اب نواز شر یف بھی کہنے والے ہیں کہ مجھے کس نے پھنسایا تھا کیونکہ حکمران خود اب تک کی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام بھی جبراً نہیں صبراً حکومت کے ساتھ ہے اور کس نے جبراً حکومت کا ساتھ دینے کیلئے کہا ہے یہ بھی صبر کا ایک پہلو ہے کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کیلئے اصل مسائل افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد شروع ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 316829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش