0
Friday 8 Nov 2013 12:20

جاسوسی کے خلاف جرمنی اور برازیل کی قرارداد

جاسوسی کے خلاف جرمنی اور برازیل کی قرارداد
اسلام ٹائمز۔ جرمنی اور برازیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی ہے جس میں ناجائز الیکٹرانک جاسوسی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں تمام ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پرائیویسی کے حقوق کو فروغ دیں۔ جرمنی اور برازیل کا کہنا ہے کہ غیر ملکی رہنماؤں کی جاسوسی کے انکشافات نے انٹرنیٹ اور الیکٹرانک پرائیویسی کے تحفظ سے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے جن پر اقوام متحدہ کو غور کرنا چاہیے۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تھرڈ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی انسانی حقوق کے امور پر نظر رکھتی ہے۔ اس دستاویز میں انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں پر تشویش ظاہر کی گئی ہے، جو مواصلات کی جاسوسی بشمول بیرون ملکوں کی کمیونیکیشنز کی جاسوسی کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔

قرارداد کے مسودے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ شہری اور سیاسی آزادیوں کے بین الاقوامی معاہدے میں الیکٹرانک کمیونیکیشنز اور پرائیویسی کو بھی شامل کیا جائے۔ جاسوسی کے یہ انکشافات سابق امریکی کانٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی امریکا کی خفیہ دستاویز کے ذریعے سامنے آئے۔ ان کے مطابق امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے جن عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی ان میں جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل اور برازیل کی صدر ڈلما روسیف بھی شامل ہیں۔ تاہم ان دونوں ملکوں کی جانب سے پیش کیے گئے مسودہ قرار داد میں امریکا یا کسی اور ملک پر الزام عائد نہیں کیا گیا۔

امریکا ان الزامات سے انکار کر چکا ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ میرکل کے رابطوں کی نگرانی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی مستقبل میں کی جائے گی۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے جرمنی کے سفیر پیٹر وِٹِگ نے کہا: ’’آج، نجی ڈیٹا تک رسائی، اس کے حصول اور اسے جمع کرنے کی راہ میں مشکل سے ہی کوئی تکنیکی حد رہ گئی ہے۔ لیکن کیا ہر اس کام کی اجازت ہونی چاہیے جو تکنیکی لحاظ سے ممکن ہے؟ جائز سکیورٹی خدشات اور پرائیویسی کے لیے افراد کے حقوق کے درمیان ہم لکیر کہاں پر کھینچیں گے۔‘‘

انہوں نے کمیٹی کو بتایا: ’’نجی کمیونیکیشنز اور ذاتی معلومات جمع کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جاسوسی کے حوالےسے سامنے آنے والی رپورٹوں نے دنیا بھر میں لوگوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہے۔‘‘ وِٹِگ نے مزید کہا: ’’وہ یہ جائز سوال پوچھ رہے ہیں: کیا ہماری اس ڈیجیٹل دُنیا میں ان کے پرائیویسی کےحق کو مؤثر تحفظ حاصل ہے۔‘‘ برازیل کے سفیر انتونیو دے اگیار پاتریوتا نے کہا: ’’پرائیوسی کے حق کے بغیر، اظہار اور رائے کی سچی آزادی ممکن نہیں، اور نہ ہی مؤثر جمہوریت پنپ سکتی ہے۔‘‘
خبر کا کوڈ : 318829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش