5
0
Friday 8 Nov 2013 21:45

گلگت بلتستان، سیاسی منظر نامہ، مذہبی سیاسی جماعتیں پھر فعال!

گلگت بلتستان، سیاسی منظر نامہ، مذہبی سیاسی جماعتیں پھر فعال!
تجزیاتی رپورٹ: ایس ٹی ایم کاظمی

گلگت بلتستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں بڑی تیزی کیساتھ تبدیلیان رونما ہو رہی ہیں، اگرچہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر کے مطابق قانون ساز اسمبلی کے انتخابات آئندہ سال اکتوبر میں ہوں گے، مگر 2 نومبر کو ایک مقامی اخبار میں ایک کالم سیاسی منظر نامہ کے عنوان سے شائع ہوا۔ کالم نگار نے ایک ابتدائی سیاسی منظر نامہ گلگت بلتستان کی سیاست کے حوالے سے قارئین کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کالم کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ اس سیاسی منظر نامے پر ذرا تفصیل سے بات کی جائے، البتہ فی الحال ہمارے سامنے صرف مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں۔

گلگت بلتستان میں باقاعدہ مذہبی سیاست کا آغاز تحریک جعفریہ پاکستان نے کیا تھا اور اس وقت علاقے کے دیندار عوام نے اس مذہبی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت کو ان کی فردی اہلیت اور قابلیت وغیرہ سے قطع نظر صرف مذہب کے نام پر کامیاب کروایا اور علاقے میں تحریک کی حکومت بھی بنی۔ فی الحال ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ حکومت بنانے کے بعد انہوں نے کیا کام کیا؟ وہ کیا کرسکتے تھے ؟ اور ان کے نعرے کیا تھے۔؟

لیکن بعض حلقوں کی نگاہ میں یہ ایک تلخ تجربہ تھا، جس سے علاقے کی عوام کو گزرنا پڑا۔ ان حلقوں کے مطابق علاقے کے مؤمنین دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ تحریک جعفریہ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر دیکھنے کی بجائے اسے مجسم اسلام کے طور پہ پیش کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں تحریک کی مخالفت کو ایک سیاسی پارٹی کی مخالفت، اس کے منشور سے اختلاف اور اس کے پلیٹ فارم سے لڑنے والوں کی مخالفت سمجھنے کی بجائے اسلام کی مخالفت کے طور پہ دیکھا گیا، البتہ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قائدین کی طرف سے ایسا تاثر دیا گیا ہو، مگر ووٹ کے لئے دینی مقدسات کے استعمال اور آئمہ اطہار ؑ کے ناموں کے استعمال نے آہستہ آہستہ یہ صورت حال پیدا کر دی تھی۔ مگر تحریک جعفریہ سے وابسطہ نظریاتی افراد کا موقف اب بھی یہی ہے کہ تحریک جعفریہ پاکستان نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کے تعاون سے گلگت بلتستان میں اپنی حکومت قائم کی اور سیاسی طور پر ہمیں ایک قومی شناخت ملی اور اسی وجہ سے پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور روایتی سیاسی جماعتوں نے تحریک جعفریہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر ہم پر توازن کی ظالمانہ پالیسی کے تحت بلاجواز طور پر پابندی عائد کر دی، مگر پابندی کے باوجود بھی ہمارا سفر جاری و ساری رہا۔

مگر یہ ایک انتہائی نامطلوب صورت حال تھی، جس نے گلگت بلتستان کی عوام کو ایک عرصے تک سیاسی مخالفت کو مذہبی رنگ میں دیکھنے کی بیماری میں مبتلا رکھا۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ لوگ اس مشکل سے باہر نکلنے کی پوزیشن میں آگئے تھے کہ بقول منیر نیازی :۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

پہلے اسلامی تحریک پاکستان نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا، پھر نوزائیدہ شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین نے بھی گلگت میں دفاع وطن کنونشن منعقد کرکے اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے اور علاقے کی غدار حکومت سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا، ساتھ ہی ساتھ انہی ایام میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بھی گلگت بلتستان کا دورہ کرکے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کر دیا، یوں گلگت بلتستان کی سیاست ایک دفعہ پھر اہم موڑ پر آکھڑی ہوئی۔

اس وقت شیعہ مذہبی جماعتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تحریک بیداری امت مصطفٰی کی غیر سیاسی مگر سیاست سے بھرپور تحریک گلگت بلتستان کے چند پڑھے لکھے اور دیندار جوانوں کے کانوں میں الیکشن کے خلاف دلائل کا رس گھول رہی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کو ولایت علیؑ سے روگردانی قرار دے کر پیروانِ ولایت کی غیرتِ ولائی کو گرما رہی ہے۔ یہ آواز شائد تماشۂ سیاست کے میدان میں تو اس وقت کوئی زیادہ اثر نہ دکھائے مگر نظریاتی سطح پر کافی لوگوں کے لئے تشویش کا موجب ضرور بنے گی، یہ نظریہ جس شدت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، اسی شدت سے جوانوں میں الیکشن کے حوالے سے بحث بھی ہو رہی ہے، نتیجتاً دینی علوم سے ناآشنا اور عمیق سیاسی بحثوں کی پچیدہ دلائل سے نابلد جوانوں کے درمیاں زیادہ سے زیادہ نظریاتی فاصلے کا موجب بھی بن رہی ہے۔

دوسری جانب الیکشن کو جائز بلکہ قومی حقوق کے حصول کے لئے الیکشن میں حصہ لینے کو ضروری قرار دینے والی جماعتیں ہیں، مگر اس ایک نکتہ پر اتفاق کے بعد ان دو بڑی دینی جماعتوں یعنی اسلامی تحریک پاکستان و مجلس وحدت ملسمین میں بھی کوئی اور اتفاق فی الحال نظر نہیں آتا۔ محرم الحرام سے کچھ ہی دنوں پہلے دونوں جماعتوں نے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان جو کیا ہے، اس کی ٹائمینگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے، ہمارے خیال میں دونوں جماعتوں کے قائدین نے گویا اپنے اپنے زیر اثر خطباء اور ذاکرین کو محرم الحرام سے بھرپور استفادہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔

بہرحال قطع نظر اس کے کہ کس کی کیا پوزیشن ہے اور زمینی حقائق کیا ہیں، گلگت بلتستان میں تین مذہبی جماعتیں آمنے سامنے کھڑی ہوئی ہوں گی، جو کہ اس علاقے اور اس علاقے کے غالب اکثریتی فرقے کے لوگوں کے لئے نہ صرف کوئی نیک شگون نہیں ہے بلکہ یقیناً نقصان دہ بھی ہے، کیونکہ ایک طرف ایک پارٹی علم کو انتخابی نشان بنا کر اسے حضرت عباسؑ کا علم قرار دے گی اور لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوگی کہ اس علم کو ووٹ دینا آپ کا شرعی وظیفہ بنتا ہے تو دوسری طرف ایک پارٹی خیمہ کو نشان قرار دے کر اسے خیمہ اہلبیتؑ کے طور پر پیش کر رہی ہوگی اور لوگوں کو خیمہ اہلبیتؑ میں داخل ہونے والے اور داخل نہ ہونے والوں میں تقسیم کر رہی ہوگی اور تیسری طرف ووٹ نہ دینے اور الیکشن کے عمل سے باہر رہنے کو لوگوں کا شرعی فریضہ بتایا جا رہا ہوگا۔ یہ صرف خیال یا تصور نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ابھی حالیہ انتخابات میں اس کا باقاعدہ مشاہدہ کیا گیا ہے، یہ صورت حال عام آدمی کو نہ صرف ووٹ کے حوالے سے مخصمے میں ڈال دے گی بلکہ اس کے مذہبی تصورات کے اوپر بھی نہایت برے اثرات مرتب کرے گی۔
دوسری جانب اہلسنت میں جماعت اسلامی و جمعیت علماء اسلام بھی اسی انداز میں انتخابات میں حصہ لیکر اہلسنت مذہبی ووٹ بنک کو تقسیم کریں گی اور رہی سہی کسر کالعدم اہلسنت و الجماعت اپنے جذباتی نعروں سے پوری کردیگی، یوں شیعہ و سنی مذہبی ووٹ بنک پھر تقسم کا شکار ہوگا اور اسکا بھرپور فائدہ روایتی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہی پہنچے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جائے کہ نقصان اور برے اثرات کم سے کم ہوں؟ تو موجودہ حالات اور بالخصوص اسلامی تحریک پاکستان اور مجلس وحدت ملسمین کے تیور دیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے معاملات طے کریں اور کوئی ایک متفقہ رائے عوام کے سامنے لائیں ایک خواب سے زیادہ نہیں لگتا، کیونکہ دونوں جماعتیں اپنے پاس ٹھوس دلائل اور مضبوط بنیادیں رکھتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ دوسری جماعت آکر ان کی جماعت میں ضم ہو جائے اور  ان میں سے ہر ایک کو پورا یقین ہے کہ گلگت بلتستان میں ان کے نامزد لوگ کامیاب ہونگے۔ لہذا انہیں کسی کا تعاون لینے یا کسی سے تعاون کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سابقہ تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ان جماعتوں سے مندرجہ ذیل باتوں کی توقع کرتے ہیں۔

1۔ محرم الحرام کی مجالس اور منابر کو سیاسی مقاصد کے لئے ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے، خواہ مذہبی سیاسی جماعت ہو یا غیر مذہبی جماعت۔
2۔ سیاست میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لئے آئمہ اطہار اور دیگر مقدسات کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے ترقیاتی کام، اپنے منشور اور لائحہ عمل کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے۔
3۔ اپنے مخالف کو سیاسی مخالف سمجھیں اور اور عام کارکنوں میں بھی یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ بھی مذہبی سیاسی جماعت کی مخالفت کو مذہب کی مخالفت پر محمول نہ کرے۔
4۔ جو علماء الیکشن میں حصہ لینے کو جائز قرار نہیں دیتے وہ بھی اس مرحلے پر لوگوں کو مشرک اور منکر ولایتِ علیؑ جیسے القابات سے نوازنے سے گریز کریں۔
5۔ دیگر پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈرز اور ووٹرز کو بھی اتنا ہی مومن اور شیعہ سمجھیں جتنا مذہبی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز اور ووٹرز ہیں۔

مذکورہ باتوں پر عمل سے نہ صرف مذہبی جماعتوں کے آپس میں ٹکرانے کے نقصانات کم ہوسکتے ہیں بلکہ اسے بہتر نتائج کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، کیونکہ انتخابات میں عوام ایسے لوگوں یا پارٹیوں کا انتخاب کرتی ہیں جو ان کے حقوق دلائے، ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہے۔ تو ایک مذہبی سیاسی جماعت تو شائد کارکردگی دکھانے کی بجائے لوگوں کے مذہبی جذبے سے استفادہ کرے، لیکن اگر مقابلے میں کوئی اور بھی مذہبی پارٹی ہو تو کم از کم اس خود اعتمادی سے کہ لوگ انہیں کامیاب کریں گے، چاہے وہ کام کریں یا نہ کریں، ہر پارٹی کو باہر آنا ہوگا۔ یوں خود مذہبی جماعتوں کے درمیان بہتری کی کوشش میں رقابت پیدا ہوگی۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں سیاست برائے مذہب کو اختیار کریں گیں نہ کہ مذہب برائے سیاست کو۔ اگرچہ فی الحال تو ہر پارٹی کا اعلان بھی یہی ہوگا مگر آنے والا وقت بتائے گا کہ کس نے سیاست کو مذہب کے لئے استعمال کیا اور کس نے مذہب کو سیاست کے لئے۔

(بشکریہ: اشرف حسین کھرمنگی، نجفِ اشرف عراق)
خبر کا کوڈ : 319038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پہلے کس نے اعلان کیا تھا الیکشن لڑنے کا، مجلس وحدت مسلمین نے یا اسلامی تحریک نے ۔۔۔ آپ کا اسلام ٹائمز کہتا ہے کہ پہلے مجلس وحدت مسلمین نے اعلان کیا پھر اسلامی تحریک نے ۔۔۔ ؟ جواب کا منتظر
رپورٹ تعصب کی عینک پہن کر بنائی گئی ہے ۔۔۔
salam
quaid nay kabhe bhe siyasat ko mazhabe rang nhe dia hay balkay us ki muqalifat ki hay mujhay nhe maloom mosoof say kiss taqrrer say iqtibas kartay hway kaha hay k aik tarf Gazi Abbas ka alam hay???
balkay humashah yahe koshis hay k agr kohe shia umeedwar khara ho to usay sunni awam bhe vote day aur issi tara baraks bhe.
aj tak yahe policy rahe hay TJP ki masoof nhe maloom ya policy kaha say lahahy hay mera khail hay unhoo nay khud istimbat ki hay.. jo k qatai sahe nhe hay
United Kingdom
So timely article

Momineen need to unite at ANY cost specially in GB
Iran, Islamic Republic of
الله واحد ساجد قائد
تعصب یہاں تک ہے کہ رپورٹ میں کہیں پر بھی کامیاب جلسے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حتیٰ گلگت بلتستان کے اخبارات نے اسے پیپلزپارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا،، لیکن موصوف کے پاس اس بارے میں کچھ لکھنے کیلئے الفاظ ہی نہیں تھے۔ گلگت کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں میں سے سب سے بڑا جلسہ تھا۔
ہماری پیشکش