0
Tuesday 19 Nov 2013 01:12

راکٹوں اور مارٹر گولوں کی بارش میں جلوس عاشورہ

راکٹوں اور مارٹر گولوں کی بارش میں جلوس عاشورہ
رپورٹ: ایس اے زیدی

نواسہ رسول (ص)، سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری برپا کرنے کیلئے عاشقان محمد و آل محمد (ص) کو ہر دور میں مشکلات کا سامنا رہا ہے، ایسی ہی مشکلات آج بھی عزاداران امام حسین (ع) کو درپیش ہیں، بلخصوص پاکستان میں عزادار انتہائی کٹھن حالات کے باوجود بھرپور انداز میں عزاداری کا اہتمام کرتے آئے ہیں، اور اسی عزاداری پر ہزاروں جانیں بھی قربان کر چکے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں بھی غیور پشتون عزاداروں نے مشن حسینی (ع) کو ہمیشہ اپنی جان، مال حتیٰ کہ ہر شے پر فوقیت دی ہے۔ 2006ء میں یوم عاشورہ کے موقع پر جلوس میں ہونے والے خودکش حملہ میں معصوم بچوں سمیت 40 عزاداران سید الشہداء (ع) نے جام شہادت نوش کیا، تاہم اس سانحہ سے قبل اور بعد بھی ہنگو کے غیور شیعان حیدر کرار (ع) راہ امام حسین (ع) میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے آئے ہیں۔ 

2006ء کے سانحہ کے بعد سے عاشورہ کے اس جلوس کو ختم کرنے کی ہر ممکن سازشیں کی گئیں۔ تاہم بلند حوصلہ اور شجاع عزاداروں نے ان تمام تر سازشوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے آج تک اس جلوس عزاء کو روکنے کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ متعدد مرتبہ اس عاشورہ کے جلوس کو یزید صفت دہشتگردوں نے مارٹر گولوں اور راکٹوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی، تاہم عزاداروں کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آ سکی، ہنگو سے تعلق رکھنے والے بعض عمائدین کا کہنا ہے کہ دہشتگرد عاشورہ کے جلوس پر ہر مرتبہ راکٹ داغتے ہیں، تاہم کوئی راکٹ عزاداروں کو نقصان نہیں پہنچاتا، اگر کوئی راکٹ جلوس کے درمیان میں آکر گر بھی جائے تو دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ پھٹا نہیں۔ رواں سال محرم الحرام کے موقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور، ڈیرہ اسماعیل، کوہاٹ اور ٹانک سمیت ضلع ہنگو کو بھی انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔ 

رواں سال یکم محرم الحرام سے 9 محرم الحرام تک ہنگو میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، سکیورٹی کے انتظامات بھی بظاہر تسلی بخش تھے۔ شب عاشورہ کو جب ماتمی جلوس صبح 5 بجے کے قریب ختم ہونے ہی والا تھا کہ دہشتگردوں نے جلوس پر راکٹوں سے حملہ کر دیا، اور جلوس پر 7 راکٹ داغے گئے۔ تاہم اس حملہ میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اور نہ ہی عزاداروں کے حوصلہ میں کوئی کمی نظر آئی۔ ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنگو میں عاشورہ کے جلوس کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا، اور انتظامیہ نے اس حوالے سے یقین دہانی کرائی تھی کہ جیسے ہی جلوس برآمد ہوگا تو فوجی ہیلی کاپٹرز پرواز شروع کردیں گے اور اگر کہیں سے بھی جلوس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو وہاں فوری طور پر کارروائی کی جائے گی۔ 

عاشورہ کا مذکورہ جلوس صبح سویرے پاس کلے سے برآمد ہوتا ہے اور پھر عزادار نوحہ خوانی اور ماتم داری کرتے ہوئے مین بازار (جس کو پٹ بازار بھی کہا جاتا ہے) کی طرف آتے ہیں۔ مین بازار میں مجلس عزاء منعقد ہوتی ہے اور پھر جلوس اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتا ہے۔ حسب سابق جلوس صبح سویرے برآمد ہوا اور شدید خطرات کے باوجود پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں بچوں، جوانوں اور بزرگوں نے اس جلوس میں شرکت کی۔ جلوس جب مین بازار میں پہنچا تو دشمنان عزاداری نے راکٹوں اور مارٹر گولوں سے حملہ شروع کر دیا۔ بزدل دہشتگرد تواتر کیساتھ راکٹ اور مارٹر گولے برساتے رہے اور عزادار ''یا حسین(ع)، یا حسین (ع)'' کی صدائیں بلند کرتے کرتے آگے بڑھتے رہے۔ جلوس کے شرکاء راکٹوں اور مارٹر گولوں کی اس بارش میں جلوس کو آگے بڑھاتے رہے، اور دہشتگردوں کی جانب سے فائر کیا گیا کوئی ایک گولہ یا راکٹ جلوس کے شرکاء کو نقصان نہیں پہنچا سکا۔
 
عینی شاہدین کے مطابق راکٹ اور مارٹر گولے جلوس کے اردگرد گرتے رہے، ایک گولہ جلوس سے محض دو گز فاصلہ پر گر کر  پھٹ بھی گیا، تاہم کسی عزادار کو خراش تک نہ آئی۔ جلوس کے شرکاء بچوں کو یہ کہہ رہے تھے کہ آپ جلوس سے چلے جائیں، تاہم بچے واپس جانے کو تیار نہ تھے۔ حتیٰ کہ ایک بچے کو اس کے عزیز نے تھپڑ بھی رسید کر دیا کہ وہ گھر چلا جائے، تاہم وہ بچہ میدان چھوڑ کر بھاگ جانے والوں میں سے نہیں تھا۔ دوسری جانب دہشتگردوں کی ہمت جواب دے گئی لیکن حسینی عزادار میدان عزاء میں ڈٹے رہے، جلوس واپس پاس کلے پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا، تاہم انتظامیہ اور فورسز کی جانب سے دہشتگردوں کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کی گئی اور وہ ہیلی کاپٹر جن کو جلوس شروع ہوتے ہی پرواز شروع کرنا تھی، جلوس ختم ہونے کے بعد پہنچے۔

مقامی ذرائع کے مطابق جلوس ختم ہونے کے بعد انتظامیہ اور فورسز نے دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کی اور ایک دہشتگرد کو رنگے ہاتھوں اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا جبکہ 30 سے زائد مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا، شدید خطرات کے باوجود ہنگو کے اس جلوس عاشورہ میں بڑی تعداد میں عزاداروں کی شرکت اور پھر شدید ترین حملہ کے باوجود ڈٹے رہنے نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ حسین (ع) کے ماننے والوں کو مارٹر گولوں، راکٹوں، بم دھماکوں، فائرنگ اور خودکش حملوں سے نہیں ڈرایا جا سکتا، بلکہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا عشق حسین (ع) سے سرشار عزاداروں کا شیوہ ہے۔ عزادار نہ کبھی پارا چنار کی جنگوں سے خوفزدہ ہوا ہے، نہ گلگت میں لشکر کشی سے، نہ کوئٹہ میں بسوں سے اتار کر نشانہ بنانے سے، نہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ سے، نہ کراچی میں قتل و غارت گری سے اور نہ ہی پشاور میں ہونے والے بم دھماکوں سے۔
خبر کا کوڈ : 321940
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش